27-11-2014, 03:27 AM
میں اور میرے ابو ایک سچی کہانی
میں آپ سب سے اپنی کہانی شیر کرنا چاہتی ہوں یہ سب جانتے ہوے بھی کہ بظایر ایسے واقعات کو ہمارے
معاشرے میں قبول نہیں کیا
کیا جاتا ہے اور ایسے
تعلقات کا بہت برا انجام ہوتا ہے؛ انہی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوے میں نے نام اور جگہ کو کہانی میں چینج کر
دیا ہے۔ اس سے پہلے میں نے اپنی کہانی کسی
سے بھی بیان نہیں کی ہے۔
میرا نام فوزیہ ہے اور میرا تعلق پنجاب کے ایک گاوں سے ہے؛ میری فیملی میں میری بڑی بہن جسکی ۲سال پہلے
شادی ہویی تھی
لیکن ۱ سال بعد طلق ہو گئی تھی اور وہ اپنے ایک بیٹےکے ساتھ ہمارے ساتھ رہتی ہیں اس کےبعد میرے ایک
بھائی ہیں جو روزگار
کے سلسلے میں ملک
سے بایر ہیں اور سب سے آخر میں میرا نمبر ہے۔
میری کہانی آج سے ۳ سال پہلے شروع ہوتی ہے جب میں نے گاوں کے سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا
اور مجھے آگے پڑھنے کا
بہت شوق تھا لیکن میری امی کسی طور پر
بھی راضی نہیں تھیں کہ مجھے شہر میں تعلیم کیلے بھیجتیں۔۔ میری ضد کی وجہ سے امی
نے ابو سے بات کی جو کراچی میں روزگار کے سلسلے
پچھلے ۱۳ سے ایک میڈیسن کمپنی میں سیلز مین کا کام کر رہے ہیں؛ کہ آپ فوزیہ کو اپنے پاس بل لیں
اسطرح وہ اپنی تعلیم بھی مکمل کر لے گی
اور آپ کو بھی گھر کے کام کاج سے جان چھوٹ جائے گی جو وہ اپنی ڈیوٹی کے بعد کرتے تھے۔ ابو نے فورآ کہا
ٹھیک
ہے اسے بھیج دو میں یہاں اسکا
داخلہ کر دوں گا۔ میں دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی شہر جاوں گی اور کالج میں داخلہ لوں گی قصہ مختصر ۲
مہینے لگے
اور ابو ۱۰ دن کیلے گھر آئے
اور واپسی پر میں بھی ان کے ساتھ کراچی کیلے روانہ ہوگی۔ کراچی پہنچنے پر پہلے تو بہت خوش ہوئی لیکن یہاں
کی ٹریفک
اور رش دیکھ کر میرا دل گھبرا
گیا اور ایک پل کو تو یہ سوچا کہ ابو سے بولوں مجھے واپس بھیج دیں لیکن میں خاموش ہوگئی یہ سوچ کر کہ
کچھ دنوں میں
عادی ہو
جاوں گئی اور یہی ہوا یہاں کی چہل پہل اور شور شرابے کی میں بھی عادی ہو گی؛ کچھ دنوں کے بعد ابو نے میرا
داخلہ ایک کالج
میں کر دیا جو
گھر سے قریب تھا اور میں باقاعدگی سے کالج جانے لگی؛ شروع کے دنوں میں مجھے کچھ پرابلم ہوئی لیکن آہست
آہستہ میں بھی عادی ہوگئی ان سب باتوں
کی جو کسی بھی نئی جگہ پر جانے میں ہوتے ہیں۔ اسی دوران میں کالج سے واپس آ کر گھر
کی صاف صفائی کرتی جو ابو نے کبھی ٹھیک سے نہیں کی ہو
تھی۔ آہستہ آہستہ میں نے کوارٹر کو صاف ستھرا کر دیا جو ۲ کمروں ، کیچن اور ۱ باتھ پر مشتمل ہے اور پھر
میرے اصرار پر ابو نے گھر کا رنگ روغن بھی
کرا دیا اور ہمارا گھر صاف ستھراہو گیا۔ ابو نے یہ سب دیکھا تو وہ بہت خوش ہو گئے اور کہنے لگے یہاں زندگی
گزر گئی ہے
لیکن کبھی ٹائم پر کھانا بھی
نہیں کھایا ہے لیکن تمھارے آنے سے یہ گھر بن گیا ہے جو پہلے صرف ایک کوارٹر تھا؛ آہستہ آہستہ وقت گزرتا
گیا اور مجھے یہاں آے ہو
مہینے گزر گئے ۷
اس سارے وقت میں؛ میں نے خود کو کافی بدل لیاتھا اور یہاں کے رہن سہن کے مطابق میں بھی ڈھل چکی تھی
اور کچھ یہاں اکر نکھار بھی آ چکا تھا اسی
دوران
میں نے نوٹس کیا کہ ابو مجھ سے باتیں بھی زیادہ کرنے لگےہیں اور وہ کوشش کرنے لگے ہیں کہ میرے ساتھ کھانا
کھائیں؛ جب کہ پہلے وہ ہمیشہ کہتے تھے تم
کھانا
کھا لینا میرا نہیں پتا میں کب واپس آوں گا۔ وقت گزرتا گیا اور پتہ بھی
نہیں چل کہ میں سیکنڈ ایر میں آ گئی۔ سب کچھ نارمل تھا امی سے بھی روزانہ
بات ہوتی تھی اور ہمیشہ یہی کہتی تھی کہ ابو کا خیال رکھنا وہ سارا دن کام کرتے ہیں تم تائم پر کھانا
بنا کر دینا وغیرہ وغیرہ میں یہی جواب دیتی کہ امی
میں یہ سب تو کر رہی ہوں۔ پھر وہ کہتی ٹھیک ہے اپنی پڑھائی پر توجہ دو جس کام کےلیئے تم گئی ہو دل لگا کر
کرنا میں ہمیشہ یہی جواب دیتی ہں امی
آپ فکر نہ کریں میں ایسا ہی کروں گی۔ پھر یوں وقت گزرتا گیا پھر اچانک سے میں نے نوٹ کیا ابو کام سے لیٹ
آنے لگے اور کبھی کبھی تو میں سو جاتی
تھی اور وہ کب آتے تھے مجھے پتا بھی نہیں
چلتا تھا؛ کچھ دن یوں ہی گزر گے پھر ایک دن میں نے ابو سے پو چھا آپ لیٹ کیون آتے ہیں آپ پہلے وقت پر آ
جاتے تھے، لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ کام زیادہ ہوتا ہے اسی وجہ سے لیٹ ہو جاتا ہوں
میں نے ان کی بات پر یقین کر لیا اور اپنی معمول کی زندگی
میں مصروف ہوگی۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ ابو بہت لیٹ آئے اور کچھ عجیب عجیب سی باتیں کر رہے تھے پھر
مجھے اندازا ہوا کہ وہ نارمل پوزیشن
میں
نہیں ہیں انہوں نے کچھ نشہ کر رکھا ہے اور ان کے منہ سے بدبو آرہی تھی جو بعد میں کسی کالج کی فرینڈ
سےپتا کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ شراب کی بو تھی۔
خیر میں وقتی طور پر پریشان ضرور ہوئی لیکن
زندگی کی گاڑی اگے بڑہتی چلی گئی اور میرا تعلیمی سلسلہ آگے بڑھتا چل گیا اور میری امی سے اکژ بات
ہوتی تھی اور وہ ہمیشہ یہی کہتی تھیں اپنی تعلیم پر توجہ دو اور اپنا ہمیشہ خیال رکھنا اور میں یہ سوچتی
آخر ماں ہیں جوان بیٹی کی فکر کرنا ان کا حق بھی
ہے اور زمہ داری بھی ہے۔ پھر ایک رات ایسا ہوا میں گہری نیند سو رہی تھی اور ابو لیٹ آہے اور وہ میرے پاس
اکر لیٹ گہےپہلے تو مجھے نیند کی وجہ سے
پتہ نہیں چل
لیکن جب میری آنکھ کھلی تو میں نے محسوس کیا وہ میری چھاتی پر ہتھ مار رہے تھے؛ پہلے تو میں گھبرا گئی
تھی اور اٹھ کر دوسری چارپائی
پر جاکر سو گئی؛ صبح جاگنے پر مجھے رات کی بات پر حیرت ہو رہی تھی اور
سوچ رہی تھی کہ یہ سب کیسے ممکن ہے کہ ایک بیٹی اپنے باپ سے جسمانی
رشتہ رکھے؛ اسی پریشانی میں؛ میں نے یہ بات اپنی بہن سے شیئر کی لیکن میری بہن کا جواب نے مجھے حیرت
میں ڈال دیا؛ اس کے بقول بیٹی کا
اپنے باپ کی
طرف راغب ہونا نیچرل بات ہے؛ میرے مزید پوچھنے پر باجی نے حیرت انگیز انکشافات کیئے جو میں نے پہلے
زندگی میں نہ کبھی سنے تھے اور نہ دیکھے تھے۔
پہلی بار مجھے اپنی بہن کی طلق کی وجہ سمجھ آئی
کہ میری بہن کو کیوں طلق ہوئی تھی اور اسکا سبب میرے ابو تھے جن کے میری بہن سے چھ سال سے
جسمانی تعلقات ہیں اور جب باجی کا حمل ہوا تو باجی کی شادی کر دی گئی لیکن جلد ہی انہیں معلوم ہو گیا تھا
کہ باجی پہلے
سے حاملہ ہیں تو انہوں نے
طلق دے دی۔ بقول باجی کے جب بھی ابو گھر میں چھٹی آتے تھے امی کے بجاہے باجی کے ساتھ سوتے تھے اور
باجی جب یہ باتیں کر رہی تھی تو ان کے لہجے
سے ذرا بھی محسوس نہیں ہو رہ تھا کہ وہ
وہ کیا کر رہی ہیں۔ جب میں نے مزید اصرار کیا تو باجی نے کہا مجھے معلوم ہے یہ سب ٹھیک نہیں ہے لیکن جو
بھی ہوا ہے اس میں امی کا ہتھ بھی ہے؛ شاید امی نے اپنی بقا کےلیے یہ سب کیا ہوا ہو؛ کیوں کہ امی کی عمر
اور ابو کی
عمر میں زیادہ فرق نہیں ہے اور امی ابو
سے بڑی لگتی ہیں؛ شاید یہی وجہ ہو گی کہ امی کو ابو پسند بھی نہیں کرتے ہیں اور انہوں نے اپنی بیٹی کو آگے
کر دیا۔ یہ ساری باتیں سننے کے بعد میں نے
باجی سے پوچھا کیا تمہیں یہ سب کرتے ہوہے
شرم حیا نہیں آتی تو باجی کہنے لگی آتی تھی لیکن اب نہیں آتی ہے؛ میرے اصرار کرنے پر وہ کہنے لگیں کہ
ایسے رشتوں کا ایک اپنا مزا ہوتا ہے جو ناجاہزہوتے ہیں؛ میں نے جتنی بار بھی ابو کے ساتھ سیکس کیا مجھے
زیادہ مزا آیا بنسبت اپنے شوہر کے
جس کے ساتھ
سیکس کرکے مجھے کبھی اتنا مزا نہیں ایا۔۔!! میں یہ سب باتیں سن کر حیرت میں پڑہ گئی اور سوچنے لگی کیا اس
دنیا میں ایسے بھی ہوتا ہے۔۔
پھر کچھ دن
ایسے ہی گزر گئے یہ سب باتیں سوچھتے سوچھتے۔ پھر ایک رات ایسے ہوا ابو نشے کی حالت میں گھر آئے اور
میں سو رہی تھی اور میرے پاس آکر لیٹ
گہے؛ ان کی موجودگی کا احساس پاکر میں انجان بنی رہی اور یہ دیکھ رہی تھی کہ ابو کیا کریں گئے
ابو نے میری شرٹ کے اندر ہتھ ڈال کر میری چھاتی پر ہتھ
پھیرنے لگے اور میں یہ سب محسوس کر کے بھی یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ مجھے کچھ پتا نہیں اور
خود کو ابو کے رحم و کرم خود کو چھوڑ دیا
ابو نے میری شرٹ کو اوپر کرکے میرے بریزیئر کو نکال دیا اور میں نے اپنی آنکھیں بند رکھیں پھر آہستہ آہستہ
ابو نے میری شلوار کو بھی نکال دیا اور میری
پھدی میں انگلی کرنے لگے اور پھر یہ سب میری برداشت سے باہر ہونے لگا اور میں نے دوسری طرف کروٹ بدل لی
لیکن ابو مسلسل میرے چھاتی پر اپنا منہ
رکھ کر میرے نپل کو چوس رہے تھے جس کی وجہ سے میری برداشت سے یہ سب باہر ہوگیا اور پھر ابونے میری
ٹانگیں کھول کر اپنے کندھے پر اور اپنے لن کو
میری چوت میں اوپر نیچے کرنے لگے اور ان ک ایسا کرنے سے میری جان نکل
رہی تھی لیکن میں نے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور اسی اثنا میں ابو نے اپنا لن
میری چوت میں ڈال دیا اور زور زور سے جھٹکے مارنے لگے تھوڑی سی تکلیف ک بعد مجھے بھی مزا انے لگا اور
میں بھی ان کا ساتھ دینے لگی؛ اور تھوڑی دیر
میں ابو میرے اندر فارغ ہو گے لیکن
مجھے بے چینی سی ہو رہی تھی اور ابو سمجھ گئے کہ میں ریلکس نہیں ہوئی پھیر انہوں نے اپنی زبان سے مجھے
فارغ کیا
اور ریلکس ہو گئی اور مجھے پتا بھی نہی چل ویسے ہی سو گئی۔ جب میں صبح اٹھی تو بستر پر خون کے نشان
دیکھ کر رات وال واقعہ آیا اور میں بہت
پریشان ہو گہی اور اس دن میں کالج بھی نہیں گئی سارا دن گھر میں بستر پر پڑی رہی اور رات والے واقعے کو
سوچ سوچ کر پریشان ہوتی رہی تھی پھر اچانک
سے باجی کی کال آئی اور وہ ادھرآدھر کی باتیں کرنے کے بعد مجھے سے رات والے واقعے کے بارے میں بات کرنے
لگی
پہلے تو میں انجان بننے لگی اور کہا ایسی