27-11-2014, 04:48 AM
شہزادی صاحبہ کے ساتھ
میرا نام شاکر ہے میری عمر 32 سال کے قریب ہے
یہ کوئی ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے پہلے کی بات ہے ایک دن میرے کمرے میں تمام کمپیوٹرز خراب تھے اور مجھے کام کرنے کے لئے دوسرے کمرے میں جانا پڑا جہاں کام ختم کرنے کے بعد حاجی صدیق صاحب نے مجھے اپنے پاس بلا لیا اور کہا کہ کبھی ہمارے پاس بھی آکر بیٹھ جایا کریں میں نے کہا حاجی صاحب آپ چائے پلائیں تو میں آپ کے پاس بیٹھ سکتا ہوں تو ان کو جیسے سانپ سونگ گیا اچانک ان کی میز کے دوسری طرف بیٹھی ایک لڑکی نے کہا سر چائے پلا دیں گے آپ بیٹھنے والی بات کریں اس کی بات سن کر میں حاجی صاحب کی ٹیبل پر بیٹھ گیا حاجی صاحب نے بتایا کہ یہ شہزادی صاحبہ ہیں اور چند دن پہلے ہی آفس جوائن کیا ہے انہوں نے ایک معروف سیاسی شخصیت کا نام بھی لیا اور بتایا کہ یہ ان کی رشتہ دار ہیں اور ان کی سفارش کی بدولت ہی اس دفتر میں آئی ہیں میرے کان حاجی صاحب کی طرف اور نگاہیں شہزادی صاحبہ کی طرف تھی جو کسی بھی طرح سے شہزادی نہیں لگ رہی تھی بیس سال کے قریب عمر کی موٹے جسم کی مالک سانولے رنگ کی عام شکل وصورت کی مالک حجاب پہنے ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھی ٹیلی فون پر کینٹین میں چائے کا آرڈر دے رہی تھی اس کے جسم میں ایک ہی خوبی تھی کہ اس کے ممے بہت بڑے تھے کم از کم اڑتیس سائز کے ہوں گے چائے پیتے ہوئے مسلسل اس کے مموں کے بارے میں سوچتا رہا بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ لاہور سے تین گھنٹے کی مسافت پر ایک قصبے سے تعلق رکھتی ہے اور یہاں ایک سرکاری ہاسٹل میں رہتی ہے جس پوسٹ پر اس کو دفتر میں رکھا گیا ہے اس کے لئے اس کی کوالیفکیشن بھی پوری نہیں ہے
ایک دن اس نے مجھے میرے موبائل پر کال کی اور کہا کہ اس کا بھائی گھر سے آرہا ہے اس کا ایک کام کسی جگہ پھنسا ہوا ہے اگر میں کوئی مدد کرسکتا ہوں تو کردو میں نے حامی بھر لی تین بجے کے قریب شہزادی صاحبہ اپنے بھائی کے ساتھ میرے کمرے میں آئی اور مجھے ایک فائل پکڑا دی میں نے فائل دیکھی تو پتا چلا کہ جس شخص نے یہ کام کرنا ہے وہ میرا ایک دوست ہے میں نے اس دوست کو فون کیا تو اس نے کہا کہ کام ہوجائے گا اور یہ کام واقعی دو دنوں بعد ہوگیا اس کے بعد شہزادی صاحبہ نے مجھے شکریہ کے لئے فون بھی کیا ایک دن میں کسی کام کے سلسلہ میں دوبارہ حاجی صاحب کے کمرے میں گیا تو حاجی صاحب موجود نہ تھے شہزادی صاحبہ نے مجھے بٹھایا اور چائے منگوالی اس دوران اس سے پندرہ بیس منٹ تک گفتگو ہوتی رہی اس نے بتایا کہ ہاسٹل میں اس کی کسی بھی لڑکی کے ساتھ اتنی زیادہ دوستی نہیں ہوئی روزانہ ہاسٹل جاکر وہ رات گئے تک بور ہوتی رہتی ہے میں نے اس کو مشورہ دیا کہ اس کے ہاسٹل کے قریب ہی ایک بڑا پارک ہے وہ وہاں شام کے وقت واک کے لئے چلی جایا کرے میں بھی اکثر شام کے وقت وہیں جاتا ہوں اس نے کہا کہ میرے ساتھ جانے کے لئے کوئی بھی نہیں ہوتا حالانکہ میرا دل بھی کرتا ہے کہ شام کو واک کیا کروں میں نے فوری طورپر خدائی خدمت گار بنتے ہوئے اپنی خدمات پیش کردیں کہ میں جس وقت پارک جاتا ہوں اس وقت وہ بھی آجایا کرے تو میں اس کو واپس ڈراپ کردیا کروں گا لیکن اس نے انکار کردیا تھوڑی دیر بعد حاجی صاحب کمرے میں آگئے میں نے ان سے کام کے متعلق بات کی اور اپنے کمرے میں آگیا شام کے وقت پارک جارہا تھا کہ راستے میں شہزادی صاحبہ کا فون آگیا کہ شاکر صاحب میں آج واک کے لئے جانا چاہتی ہوں آپ کس وقت آئیں گے مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ چند گھنٹے پہلے ہی اس لڑکی نے مجھے ایک ٹکا سا جواب دیا تھا اور اب مجھے خود کہہ رہی ہے خیر میں نے اسے بتا یا کہ میں پارک تھوڑی دیر کے بعد پہنچ جاﺅں گا میں پارک پہنچا تو گیٹ پر ہی اس کے ساتھ ملاقات ہوگئی دونوں اکٹھے پارک میں گئے اور باتیں کرتے کرتے واک کرتے رہے اس دوران شہزادی صاحبہ نے بتایا کہ ان کے باپ ایک مذہبی جماعت کے ضلعی امیر ہیں اور ان کا گھرانہ بہت مذہبی ہے اس کے گھر والے اس کو دوسرے شہر میں ملازمت کے لئے نہیں آنے دیتے تھے مگر وہ ضد کرکے یہاں آئی ہے رات کو آٹھ بجے میں نے اس کو ہاسٹل چھوڑا اور خود گھر آگیا اگلے دن پھر شہزادی صاحبہ کا فون آگیا سات آٹھ دن تک میں نہ چاہتے ہوئے تھی اپنی خدمات شہزادی صاحبہ کو پیش کرتا رہااب روزانہ شہزادی صاحبہ مجھے دفتر میں ہی انٹر کام کے ذریعے پوچھ لیتیں کہ کس وقت پارک جانا ہے ایک دن میرے ایک کولیگ نے مجھے کہا کہ خوب عشق چل رہے میں نے اس سے پوچھا کہ کون سے عشق تو اس نے کہا کہ شہزادی صاحبہ کے ساتھ میں بہت پریشان ہوا اس دن میں نے واک کے دوران شہزادی کو کہا کہ میں کل سے تمہارے ساتھ نہیں واک کروں گا دفتر میں لوگ باتیں کررہے ہیں اس نے کہا کہ باتیں کرتے ہیں تو کرنے دو تم میرے ساتھ نہ ہوئے تو میں بھی واک نہیں کرسکوں گی میری روٹین خراب نہ کرو اس دن میں نے دل میں ”کچھ اور ہی“ سوچ لیا اور اس سے کہا کہ کل اتوار ہے اور دفتر سے چھٹی ہے کیوں نہ کہیں آﺅٹنگ پر چلیں اس نے فوراً حامی بھر لی میں اگلے دن صبح دس بجے کے قریب اس کے ہاسٹل چلا گیا اور اس کو گاڑی میں بٹھا کر سیدھا واہگہ بارڈر چلا گیا جہاں پر ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کا ہوٹل بنا ہوا ہے اس کا مینجر میرا دوست ہے میں نے راستے سے اس کو فون کیا کہ میں آرہا ہوں اور میرے ساتھ دفتر کی ایک کولیگ ہیں جنہوں نے شام کو فلیگ سرمنی دیکھنی ہے شام تک کمرا چاہئے اس نے کہا کہ آجائیں ہوٹل پہنچ کر ناشتہ کیا تو میں نے اٹھ کر کمرے کا دروازہ اندر سے بند کیا اور شہزادی صاحبہ کو آکر پکڑ لیااور ان کو کسنگ شروع کردی شہزادی صاحبہ نے مجھے ہاتھ سے ہٹا دیا اور کہا کہ کیا کررہے ہیں یہ کوئی اچھی بات ہے میں نے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا تو کہنے لگی کہ یہ سب ناجائز ہے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا مجھے بہت غصہ آیا میں نے اس کو زور زور سے دو تھپڑ رسید کردئےے اور کہا کہ روزانہ میرے ساتھ پارک میں واک کے لئے جاتی ہو وہ سب کچھ جائز ہے یہاں میرے ساتھ ایک کمرے میں ٹھہری ہو یہ سب کچھ جائز ہے روتے کہنے لگی کچھ بھی ہومیں یہ کام نہیں کروں گی میں نے کہا کہ اگر وہ یہ سب کچھ نہیں کرسکتی تو فوری طورپر یہاںسے چلی جائے میں اس کو واپس بھی نہیں لے جاسکتا یہ کہہ کر میں کمرے سے باہر نکل آیا اور مینجر سے اخبار لے کر دوبارہ کمرے میں آکر پڑھنے لگا پندرہ منٹ کے بعد شہزادی صاحبہ جو صوفے پر بیٹھی تھیں بیڈ پر میرے ساتھ آکر بیٹھ گئیں اور کہنے لگی اور کچھ نہیں مجھے صرف شرم آتی ہے یہ سن کر میں نے اس کو کہا کہ تم آنکھیں بند کرلو شرم نہیں آئے گی تو کہنے لگی کہ صرف کسنگ ہی کرنی ہے اس سے آگے کچھ بھی نہیں میں نے موقع کو غنیمت جانا اور کہا کہ میں نے اس کے ساتھ دوستی صرف اس کے مموں کی وجہ سے کی ہے یہ مجھے بہت پسند ہیں میں ان کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں تو کہنے لگی کہ ٹھیک ہے مگر اس سے آگے کچھ نہیںمیں نے فوراً حامی بھر لی اور فوری طورپر اس کا حجاب اتارا اور اس کو کسنگ شروع کردی اس دوران پہلے تو وہ پتھر بنی رہی مگر تھوڑی دیر بعد میرا ساتھ دینے لگی دس پندرہ منٹ بعد میں نے اس کی قمیص اتاری تو کہنے لگی کمبل اوپر اوڑھ لو میں نے کمبل اوڑھ لیا اور اس کا بریزئیر بھی اتار دیا اور اس کے مموں کو چوسنا شروع کردیا اس دوران وہ کافی ہاٹ ہوگئی اور منہ سے اف ف ف ف ‘ام م م م م م ‘ س س س س س س کی آوازیں نکالنے لگی میں نے اس کی شلوار اتارنی چاہی تو اس نے پھر سے منع کردیا میں نے اس کو کہا کہ بہتر ہے آج مجھے منع نہ کرو میں نہیں چاہتا کہ تم سے زبر دستی کروں مگر تم نے مزاحمت کی تو میں زبردستی کروں گا اور یہ کام پھر بھی ہوجائے گا یہ بات سن کر اس نے مزاحمت ترک کردی اور میں نے اس کی شلوار اتار دی اس کے بعد میں نے کمبل بھی اوپر سے اتار دیا اس کے ممے بھی کیا ممے تھے میں اپنے ہاتھ اس کے جسم پر پھیر رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس کے جسم کو بھی دیکھ رہا تھا وہ آہستہ آہستہ مچل رہی تھی اور میں اس کے جسم کو بغور دیکھ رہا تھا اس کے جسم پر دو جگہ تل تھے ایک دونوں مموں کے درمیان اور ایک پیٹ میں ناف کے قریب‘ اس نے ایک دو دن پہلے ہی ستر کے بال صاف کئے تھے چند منٹ میں ہی شہزادی صاحبہ آﺅٹ آف کنٹرول ہوگئیں اور مجھ کو پکڑ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور کہنے لگی شاکر کچھ کرو میں آج مر جاﺅں گی میں نے دوبارہ اس کی کسنگ شروع کردی اور اس کو مزید تڑپانے لگا وہ جنسی بلیوں کی طرح مجھے کاٹنے لگی میں نے اب اس کو زیادہ تڑپانا مناسب نہ سمجھا اوراپنے کپڑے اتار دیئے
میرا نام شاکر ہے میری عمر 32 سال کے قریب ہے
یہ کوئی ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے پہلے کی بات ہے ایک دن میرے کمرے میں تمام کمپیوٹرز خراب تھے اور مجھے کام کرنے کے لئے دوسرے کمرے میں جانا پڑا جہاں کام ختم کرنے کے بعد حاجی صدیق صاحب نے مجھے اپنے پاس بلا لیا اور کہا کہ کبھی ہمارے پاس بھی آکر بیٹھ جایا کریں میں نے کہا حاجی صاحب آپ چائے پلائیں تو میں آپ کے پاس بیٹھ سکتا ہوں تو ان کو جیسے سانپ سونگ گیا اچانک ان کی میز کے دوسری طرف بیٹھی ایک لڑکی نے کہا سر چائے پلا دیں گے آپ بیٹھنے والی بات کریں اس کی بات سن کر میں حاجی صاحب کی ٹیبل پر بیٹھ گیا حاجی صاحب نے بتایا کہ یہ شہزادی صاحبہ ہیں اور چند دن پہلے ہی آفس جوائن کیا ہے انہوں نے ایک معروف سیاسی شخصیت کا نام بھی لیا اور بتایا کہ یہ ان کی رشتہ دار ہیں اور ان کی سفارش کی بدولت ہی اس دفتر میں آئی ہیں میرے کان حاجی صاحب کی طرف اور نگاہیں شہزادی صاحبہ کی طرف تھی جو کسی بھی طرح سے شہزادی نہیں لگ رہی تھی بیس سال کے قریب عمر کی موٹے جسم کی مالک سانولے رنگ کی عام شکل وصورت کی مالک حجاب پہنے ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھی ٹیلی فون پر کینٹین میں چائے کا آرڈر دے رہی تھی اس کے جسم میں ایک ہی خوبی تھی کہ اس کے ممے بہت بڑے تھے کم از کم اڑتیس سائز کے ہوں گے چائے پیتے ہوئے مسلسل اس کے مموں کے بارے میں سوچتا رہا بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ لاہور سے تین گھنٹے کی مسافت پر ایک قصبے سے تعلق رکھتی ہے اور یہاں ایک سرکاری ہاسٹل میں رہتی ہے جس پوسٹ پر اس کو دفتر میں رکھا گیا ہے اس کے لئے اس کی کوالیفکیشن بھی پوری نہیں ہے
ایک دن اس نے مجھے میرے موبائل پر کال کی اور کہا کہ اس کا بھائی گھر سے آرہا ہے اس کا ایک کام کسی جگہ پھنسا ہوا ہے اگر میں کوئی مدد کرسکتا ہوں تو کردو میں نے حامی بھر لی تین بجے کے قریب شہزادی صاحبہ اپنے بھائی کے ساتھ میرے کمرے میں آئی اور مجھے ایک فائل پکڑا دی میں نے فائل دیکھی تو پتا چلا کہ جس شخص نے یہ کام کرنا ہے وہ میرا ایک دوست ہے میں نے اس دوست کو فون کیا تو اس نے کہا کہ کام ہوجائے گا اور یہ کام واقعی دو دنوں بعد ہوگیا اس کے بعد شہزادی صاحبہ نے مجھے شکریہ کے لئے فون بھی کیا ایک دن میں کسی کام کے سلسلہ میں دوبارہ حاجی صاحب کے کمرے میں گیا تو حاجی صاحب موجود نہ تھے شہزادی صاحبہ نے مجھے بٹھایا اور چائے منگوالی اس دوران اس سے پندرہ بیس منٹ تک گفتگو ہوتی رہی اس نے بتایا کہ ہاسٹل میں اس کی کسی بھی لڑکی کے ساتھ اتنی زیادہ دوستی نہیں ہوئی روزانہ ہاسٹل جاکر وہ رات گئے تک بور ہوتی رہتی ہے میں نے اس کو مشورہ دیا کہ اس کے ہاسٹل کے قریب ہی ایک بڑا پارک ہے وہ وہاں شام کے وقت واک کے لئے چلی جایا کرے میں بھی اکثر شام کے وقت وہیں جاتا ہوں اس نے کہا کہ میرے ساتھ جانے کے لئے کوئی بھی نہیں ہوتا حالانکہ میرا دل بھی کرتا ہے کہ شام کو واک کیا کروں میں نے فوری طورپر خدائی خدمت گار بنتے ہوئے اپنی خدمات پیش کردیں کہ میں جس وقت پارک جاتا ہوں اس وقت وہ بھی آجایا کرے تو میں اس کو واپس ڈراپ کردیا کروں گا لیکن اس نے انکار کردیا تھوڑی دیر بعد حاجی صاحب کمرے میں آگئے میں نے ان سے کام کے متعلق بات کی اور اپنے کمرے میں آگیا شام کے وقت پارک جارہا تھا کہ راستے میں شہزادی صاحبہ کا فون آگیا کہ شاکر صاحب میں آج واک کے لئے جانا چاہتی ہوں آپ کس وقت آئیں گے مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ چند گھنٹے پہلے ہی اس لڑکی نے مجھے ایک ٹکا سا جواب دیا تھا اور اب مجھے خود کہہ رہی ہے خیر میں نے اسے بتا یا کہ میں پارک تھوڑی دیر کے بعد پہنچ جاﺅں گا میں پارک پہنچا تو گیٹ پر ہی اس کے ساتھ ملاقات ہوگئی دونوں اکٹھے پارک میں گئے اور باتیں کرتے کرتے واک کرتے رہے اس دوران شہزادی صاحبہ نے بتایا کہ ان کے باپ ایک مذہبی جماعت کے ضلعی امیر ہیں اور ان کا گھرانہ بہت مذہبی ہے اس کے گھر والے اس کو دوسرے شہر میں ملازمت کے لئے نہیں آنے دیتے تھے مگر وہ ضد کرکے یہاں آئی ہے رات کو آٹھ بجے میں نے اس کو ہاسٹل چھوڑا اور خود گھر آگیا اگلے دن پھر شہزادی صاحبہ کا فون آگیا سات آٹھ دن تک میں نہ چاہتے ہوئے تھی اپنی خدمات شہزادی صاحبہ کو پیش کرتا رہااب روزانہ شہزادی صاحبہ مجھے دفتر میں ہی انٹر کام کے ذریعے پوچھ لیتیں کہ کس وقت پارک جانا ہے ایک دن میرے ایک کولیگ نے مجھے کہا کہ خوب عشق چل رہے میں نے اس سے پوچھا کہ کون سے عشق تو اس نے کہا کہ شہزادی صاحبہ کے ساتھ میں بہت پریشان ہوا اس دن میں نے واک کے دوران شہزادی کو کہا کہ میں کل سے تمہارے ساتھ نہیں واک کروں گا دفتر میں لوگ باتیں کررہے ہیں اس نے کہا کہ باتیں کرتے ہیں تو کرنے دو تم میرے ساتھ نہ ہوئے تو میں بھی واک نہیں کرسکوں گی میری روٹین خراب نہ کرو اس دن میں نے دل میں ”کچھ اور ہی“ سوچ لیا اور اس سے کہا کہ کل اتوار ہے اور دفتر سے چھٹی ہے کیوں نہ کہیں آﺅٹنگ پر چلیں اس نے فوراً حامی بھر لی میں اگلے دن صبح دس بجے کے قریب اس کے ہاسٹل چلا گیا اور اس کو گاڑی میں بٹھا کر سیدھا واہگہ بارڈر چلا گیا جہاں پر ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کا ہوٹل بنا ہوا ہے اس کا مینجر میرا دوست ہے میں نے راستے سے اس کو فون کیا کہ میں آرہا ہوں اور میرے ساتھ دفتر کی ایک کولیگ ہیں جنہوں نے شام کو فلیگ سرمنی دیکھنی ہے شام تک کمرا چاہئے اس نے کہا کہ آجائیں ہوٹل پہنچ کر ناشتہ کیا تو میں نے اٹھ کر کمرے کا دروازہ اندر سے بند کیا اور شہزادی صاحبہ کو آکر پکڑ لیااور ان کو کسنگ شروع کردی شہزادی صاحبہ نے مجھے ہاتھ سے ہٹا دیا اور کہا کہ کیا کررہے ہیں یہ کوئی اچھی بات ہے میں نے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا تو کہنے لگی کہ یہ سب ناجائز ہے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا مجھے بہت غصہ آیا میں نے اس کو زور زور سے دو تھپڑ رسید کردئےے اور کہا کہ روزانہ میرے ساتھ پارک میں واک کے لئے جاتی ہو وہ سب کچھ جائز ہے یہاں میرے ساتھ ایک کمرے میں ٹھہری ہو یہ سب کچھ جائز ہے روتے کہنے لگی کچھ بھی ہومیں یہ کام نہیں کروں گی میں نے کہا کہ اگر وہ یہ سب کچھ نہیں کرسکتی تو فوری طورپر یہاںسے چلی جائے میں اس کو واپس بھی نہیں لے جاسکتا یہ کہہ کر میں کمرے سے باہر نکل آیا اور مینجر سے اخبار لے کر دوبارہ کمرے میں آکر پڑھنے لگا پندرہ منٹ کے بعد شہزادی صاحبہ جو صوفے پر بیٹھی تھیں بیڈ پر میرے ساتھ آکر بیٹھ گئیں اور کہنے لگی اور کچھ نہیں مجھے صرف شرم آتی ہے یہ سن کر میں نے اس کو کہا کہ تم آنکھیں بند کرلو شرم نہیں آئے گی تو کہنے لگی کہ صرف کسنگ ہی کرنی ہے اس سے آگے کچھ بھی نہیں میں نے موقع کو غنیمت جانا اور کہا کہ میں نے اس کے ساتھ دوستی صرف اس کے مموں کی وجہ سے کی ہے یہ مجھے بہت پسند ہیں میں ان کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں تو کہنے لگی کہ ٹھیک ہے مگر اس سے آگے کچھ نہیںمیں نے فوراً حامی بھر لی اور فوری طورپر اس کا حجاب اتارا اور اس کو کسنگ شروع کردی اس دوران پہلے تو وہ پتھر بنی رہی مگر تھوڑی دیر بعد میرا ساتھ دینے لگی دس پندرہ منٹ بعد میں نے اس کی قمیص اتاری تو کہنے لگی کمبل اوپر اوڑھ لو میں نے کمبل اوڑھ لیا اور اس کا بریزئیر بھی اتار دیا اور اس کے مموں کو چوسنا شروع کردیا اس دوران وہ کافی ہاٹ ہوگئی اور منہ سے اف ف ف ف ‘ام م م م م م ‘ س س س س س س کی آوازیں نکالنے لگی میں نے اس کی شلوار اتارنی چاہی تو اس نے پھر سے منع کردیا میں نے اس کو کہا کہ بہتر ہے آج مجھے منع نہ کرو میں نہیں چاہتا کہ تم سے زبر دستی کروں مگر تم نے مزاحمت کی تو میں زبردستی کروں گا اور یہ کام پھر بھی ہوجائے گا یہ بات سن کر اس نے مزاحمت ترک کردی اور میں نے اس کی شلوار اتار دی اس کے بعد میں نے کمبل بھی اوپر سے اتار دیا اس کے ممے بھی کیا ممے تھے میں اپنے ہاتھ اس کے جسم پر پھیر رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس کے جسم کو بھی دیکھ رہا تھا وہ آہستہ آہستہ مچل رہی تھی اور میں اس کے جسم کو بغور دیکھ رہا تھا اس کے جسم پر دو جگہ تل تھے ایک دونوں مموں کے درمیان اور ایک پیٹ میں ناف کے قریب‘ اس نے ایک دو دن پہلے ہی ستر کے بال صاف کئے تھے چند منٹ میں ہی شہزادی صاحبہ آﺅٹ آف کنٹرول ہوگئیں اور مجھ کو پکڑ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور کہنے لگی شاکر کچھ کرو میں آج مر جاﺅں گی میں نے دوبارہ اس کی کسنگ شروع کردی اور اس کو مزید تڑپانے لگا وہ جنسی بلیوں کی طرح مجھے کاٹنے لگی میں نے اب اس کو زیادہ تڑپانا مناسب نہ سمجھا اوراپنے کپڑے اتار دیئے