27-11-2014, 04:21 AM
پیاسی جوانی ہا ئے ہائے
یہ میری کسی بھی فورم پر پہلی سٹوری ہے اگر پسند آئی تو اُ پ ڈیٹ ہوتی رہے گی۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں سیالکوٹ کے ایک کالچ میں ایف اے کر رہا تھا ۔ میرے والدیں سیالکوٹ سے کافی دور ایک گائو ں میں رہتے تھے اور میں ہفتے کی شام کو گائوں چلا جاتا تھا اور سوموار کو واپس سیالکوٹ آجاتا تھا
ایک دفعہ جب میں اپنے گائو گیا تو کھانا کھا کر میں چھت پر ٹہلنے چلا گیا۔ اچانک مجھے ایک لڑکی نے میرا نام لے کر پکارا ناصر جب میں نے ادھر اُدھر دیکھا تو مجھے کوئی لڑکی نظر نہ آئی میں میں پھر سے ٹہلنے لگ گیا ۔ پھر پندرہ منٹ بعد مجھے پھر آواز آئی ناصر پھرمیں آواز کی طرف دوڑا تو دیکھا کہ ہمسائیوں کی لڑکی نے جس کا نام روبینہ ہے اس نے آواز دی تھی میں نے کہا ہاں کیا کام ہے مجھے کیوں آواز دی ہے ۔اُس نے جواب دیا کے تجھے میری قسم لگے اگر کل توواپس سیالکوٹ جائے یہ کہہ کر وہ واپس اپنے گھر بھا گ گئی اس سے پہلے مجھے کسی بھی لڑکی نے کبھی بھی لفٹ نہیں کروائی تھی۔ اور نہ ہی لڑکی کو چودنا مجھے آتا تھا صرف اتنا پتہ تھا کہ لڑکی کی ایک بنڈ ہوتی ہے اور لن کی جگہ پھدی ہوتی ہے یہ بات اور تھی کہ بچپن میں میں نے اپنا ذیادہ تر وقت لڑکیوں کے بیچ ہی گزارہ میں سب گھر والوں سے چھوٹا تھا اور سبھی میجھے بہت پیار کرتے تھے۔ جب اس نے کہا کے تمھیں میری قسم لگے اگر تم سیالکوٹ واپس جائو تو میرے زہین میں ایک عجیب سی امنگ جاگی جو پہلے کبھی نہ تھی ۔ روبیہ ہمارے محلے کی خوبصورت لڑکیوں میں سے ایک تھی ۔ میرے خیالوں میں اُس کا خوبصورت چہرہ چھا گیا سارا دن میں اُس کے بارے میں سوچتا رہا۔ سوچتا رہا۔ بار باروہ میرے خیالوں میں چھا جاتی، اور میں خیالوں میں ہی اس سے خودکلامی کرتا رہا۔ اگلے دن جب میرے ابو نے کہا کے بیٹا چلو سیالکوٹ جلدی چلو نہیں تو کالج کی پڑھائی کا حرج ہو گا۔ تو میں نے کہا کہ میں آج میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔ اور میں نہیں جائوں گا ویسے بھی کالج کے پروفیسر کبھی آتے ہیں کبھی نہیں آتے پچھلے ایک ہفتے میں صرف دو دن کلاس ہوئی ہے۔ جب میں نے یہ کہا تو میرے ابو غصے میں ٓآگئےاور میری ماں کو کہنے لگے دیکوں ہم اس کی پڑھائی کے لیے کیاکیا نہیں کرتے اس کو کھلا خرچ دیتے ہیں اور یہ تو آج کالج جائے ہی جائے۔ میری امی نے جب یہ سنا تو پوچھا کیا بات بیٹا میں نے کہا امی مجھے بخار ہے تو میری امی نے میری بازو پکڑکی چیک کی اور ابو کی ڈاٹنے لگی میرے لاڈلے کو کیوں ہر وقت میرے بیٹے کو ڈانٹتے رہتے ہو انسان بنوں بیٹا اب جوان ہو گیا ہے۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد میں چھت پر گیا تو ساتھ والی چھت پر روبینہ کھڑی تھی ۔ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی اوراس کی مسکراہٹ نے میری جان ہی نکال دی اور یہ کہہ کر چلی گئی کی میں ابھی آتی ہوں
تھوڑی دیر بعد وہ گیلے کپڑے لے کر چھت پر آگئی اور چھت پر لگی تاروں پر ڈالنے لگی اور مجھے کہا کہ میں بھی ان کی چھت پر آجائوں جونہی میں ان کی چھت پر گیا تو اسے نے مجھے گلے سے لگا لیا، میں اسے کے ممے دبانے لگا۔ اس نے میرا شکریہ ادا کیا کہ میں نے اُس کی قسم کی لاج رکھ لی ہے۔ اور اس نے میرا لن پکڑا لیا اور اس کو دبانے لگی ۔ اور مجھے چومنے لگی ۔ میں نے کہا کیا کر رہی ہوتو روبنیہ نے جواب دیا تم کیا کرنا چاہتے ہو جو دل میں آئے کرو۔ اور ساتھ ہی اپنی شلوار نیچے گرا دی اور میری پنٹ کھولنے لگی
جب اس نے اپنی شلوار نیچے گرائی تو میں گھبرا گیا ۔ میرا دل ذور ذور سے دھڑک رہا تھا ۔ جیسے میں کئی میل بھاگتا ہوا آیا ہوا ۔ دک دک مجھے صرف دھک دھک کی آواز ہی سنائی دے رہی تھی۔ میں نے اُس کو کہا کہ مجھے ڈر لگتا ہے۔ کوئی دیکھ لے گا۔ اس نے اپنی شلوار اُوپر کر لی اور کہا ڈرپوک کہیں کا ۔ کہنے کو تو کالج میں پڑھتا ہے۔ میں پچھلے ایک سال سے تیری راہ دیکھ رہی تھی۔ اور ساتھ ہی اس نے کہا آئی لو یو۔ میں نے جواب میں کہا آئی لو یو ٹو مچ ۔ پھر میں نے اس کے مموں کو دبانا شروع کر دیا۔ اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے اور کسنگ کرنا شروع ہو گئ میں کسنگ میں بھی نہ تجربہ کار تھا۔ پر میں نے بھی اس کا ساتھ دیا اور اس کی چمیاں لینے لگا۔ اور ساتھ ہی ساتھ اس کے ممے دبانے لگا۔ اس نے کھلے گلے والی قمیض پہنی ہوئی تھی میں نے اپنا ہاتھ اسے کی قمیض میں ڈالا اور اس کے ایک ممے کو قمیض سے باہر نکال کر اسے بچوں کی طرح چوسنے لگا میں اس کا سارا مما منہ میں ڈالنے کی کوشش کی اور ذور ذور سے چوسنے لگا ۔ اب میرا ڈر ختم ہو گیا تھا۔ وہ کہنے لگی کہ آہستہ آہستہ سے چوسو۔ تمھارے دانت میرے مموں کو کاٹ رہے ہیں اور مجھے درد ہو رہی ہے۔ میں نے کہا میں تو دانت نہیں کاٹ رہا بلکہ آرام سے چوس رہا ہوں پھر اس نے میری شرٹ کا بٹن کھول کر اپنی زبان میرے چھاتی پر پھیری اور میرے نپلز چاٹ کر ان کو منہ میں ڈالنے لگی اور کہا کہ ایسے چوسو کہ تمارے دانت میرے مموں کہ نہ کاٹییں ۔ پھر میں نے اس کا نپلز منہ میں لیا اور چاٹنے لگا۔ اور ساتھ ہیں میں نے ایک ہاتھ اس کی شلوار میں ڈال دیا اور اس کی چوت کو ذور سے دبائی اور وہ تڑپ اُٹھی اور کہنے لگی آرام سے۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ میں جلد از جلد لن اس کی چوت میں ڈالنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنی پنٹ نیچے گرائی اور اپنا لنڈ اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ اس نے نیچے ہو کر میرے لنڈ کی چمی لی اور تمھاری طرح یہ بھی بہت پیارا ہے۔ اور اس کو چاٹنے لگی میں نے اُسے کہا کے اب نیچے لیٹ جائو اور نیچے لیٹ گئی اب میں نے اُس کی شلوار اُتار دی اور لن اس کی چوت پر رکھ دیا ۔اس کی چوت سے پانی بہہ رہا تھا۔ اس نے لن کو ذور سے پکر کر چوت پر ڑگڑا میں نے کہا میرے لن کو چھوڑ دو تمھارے ناخن میرےلن کو تکلیف دے رہے ہیں۔ پھر روبینہ بولی چل جلدی سے اس کو اندر ڈال دو۔ اس نے دونوں ٹانگیں کھول دی اور تھوڑا اوپر اُٹھا دیں ۔ اور میں نے ایک دھکا لگا۔ اور اُس نے کہا ہائی اماں میں مر گئی۔ اُس کی آواز اتنی اونچی تھی کہ میں گھبرا گیا۔ میں نے کہا کیا ہوا ۔ تو وہ کہنے لگی تم نے میری پھدی سے خون نکال دیا ہے۔میں نے کہا کیا۔ اور میں رُک گیا ۔ اس نے کہا کچھ نہیں تم جلدی سے پورا لنڈ اندر ڈالو۔ میں نے لن اور اندر کیا اور اوپر نیچے ہونے لگا۔ وہ ہاے ہائے کرنے لگی جب بھی وہ ہائے ہائے کرتی میں رک جاتا ۔ میں نے کہا کیا ہوا ہے۔ اس نے کہا مجھے مزا آرہا ہے۔ بیوقوف تم پھدی میں ڈالو۔ میری چوت کو ٹھنڈا کرو۔ اور اگر اب تم رکے تو میں نے ذور سے ٹانگ مارنی ہے تیرے منہ پر ۔ مجھے غصہ آ گیا۔ پھر میں ذور ذور سے دھکے لگانے لگا۔ اور وہ آئی ہوئی کرنے لگی میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ۔ میں کوئی دو منٹ ہی دھکے لگائے ہوں گے اور جب میں نے سر اُٹھا کر اوپر دیکھا تو سامنے اُس کی چھوٹی بہن ثمینہ کھڑی تھی۔ میرے سارے جسم سے جان ہی نکل گئی میں جلدی سے اُٹھا اور پنٹ پہنی اور اپنی چھت پر چھلانگ لگا دی اور پھر سیڑھیوں سے نیچے اُترا اور باہر بھاگ گیا۔ کچھ دیر بعد جب میرے ہوش بحال ہوئے تو میں گھر کی طرف واپس آیا تو دیکھا کہ روبینہ کا بھائی ارشد ہمارے دروازے کی کنڈی کٹکھٹا رہاہے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے گھر کی طرف بھڑنا شروع کیا اور جب اس نے مجھے دیکھا تو وہ میری طرف آنا شروع ہو گیا۔ میں اندر سے ڈر گیا کہ کہیں آج میری عزت کا فالودہ ہی نہ بن جائے۔ اسے نے آتے ہی کہا ناصر صاحب کدھر ہوتے ہیں آج کل ؟ میں خاموش اُسے دیکھتا رہا۔ کہنے لگا جناب کدھر گم ہیں ۔ میں نے کہا کہیں نہیں تو اس نے کہا اگلے اتوار ہمارا کرکٹ کا میچ ہے اور تم تو سیالکوٹ جاتے ہی رہتے ہو ۔ میرے لیے بیٹ اور کچھ بال لے آنا۔ میرا آدھا ڈر ؤہیں ختم ہو گیا۔ میں نے اسے کہا کہ اگلے ہفتے تمیں بہترین بیٹ اور بال مل جائیں گے۔ اور کوئی کام ہے تو بتاو اس نے کہا کے اچھے سی اے والے بیٹ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ میں نے دل میں شکرادا کیا کہ کچھ پھینٹی نہیں پڑی ۔ اور اس کو گڈ بائے کہہ کر گھر آگیا۔ غسل کیا اور صحن میں بچھی چارپائی پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ کہ اب آگے کیا ہو گا ۔ میں اسی حالت میں بیٹھا ہوا تھا کہ میرے سر پر ایک چھوٹا سا پتھر لگا۔ میں نے جب اوپر دیکھا تو روبینہ اپنے چھت کی دیوار پر کھڑی تھی مسکرا رہی تھی اور اپنی طرف آنے کا اشارہ کر رہی تھی ۔لیکن میں نے انکار کر دیا۔ تو اس نے چھوٹے چھوٹے پتھر ہمارے صحن میں گرانے شروع کر دیے ۔آخر کار مجھے جانا ہی پڑا ۔ میں نے جاتے ہی ادھر ادھر دیکھا تو اور اس سے کہا کہ آجائو مجھے تمھاری بہت فکر تھی کہ کہیں تم گھر چھوڑ کر بھاگ نہ جائو سنو میں اور ثمینہ ہم راز ہیں ۔ ہم اکٹھی ہی ایک چارپائی پر سوتی ہیں اور دونوں ہی تم پر مرتی ہیں۔