قسط نمبر 5 ۔۔۔۔
اگلی صبح بڑی دلکش تھی ۔۔۔میں بڑے اطمینا ن سے اٹھا ۔۔آنکھ کھلی تو کچھ عجیب سامنظر لگا۔۔۔۔پھر یاد آیا کہ میں مندر میں موجود ہوں ۔۔۔۔۔جیوتی میرے برابر میں اب تک تھی ۔۔۔۔۔۔۔جسم پر سفید چادر پڑی تھی جس سے دلکش ابھار جھلک رہے تھے ۔۔۔میں نے جلدی سے اٹھ کر اپنی پجاری والی حالت میں واپس آگیا ۔۔۔۔آئی فون میں کیم سوفٹ وئیر کھولا ۔۔۔۔مندر کے معمولات ویسے ہی جاری تھی ۔۔۔۔اتنے میں جیوتی کی آنکھ کھلی ۔۔مجھے قریب دیکھ آنکھوں میں نشہ سا آیا تھا۔۔۔۔خود کو چادر میں دیکھ کر کچھ سمٹی ، شرمائی اور اٹھ کر ساڑھی پہننے لگی ۔ساڑی پہن کر وہ بیڈ پر بیٹھی ۔۔اور کہنے لگی کہ مہاراج ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں آپ کی داسی بن کر یہیں رہ لوں ۔۔۔اب واپس جانے کا من نہیں ہوتا ۔۔۔آپ کا ہر کام اور سیوا کروں گی ۔۔۔بس اپنے چرنوں میں جگہ دے دیں ۔۔۔میں نے ایک نظر اس حسن کی دیوی کو دیکھا ۔۔۔اور کہا اچھا پہلے ناشتے کا بندوبست کریئے ۔۔۔رات کا بھوجن بھی نہ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔جیوتی کو تیار ہونے کا کہہ کرمیں نے گھنٹی بجا ئی ۔۔ ۔۔۔چھوٹا پجاری انتظار میں تھا ۔دوسرے فلور کے کمرے سے نکل کر وہ اوپر آنے لگا۔۔۔اس کا بستر بھی خالی نہیں تھا ۔۔ایک نسوانی وجود وہاں بھی لیٹا ہوا تھا ۔۔پجاری جیوتی کو لے کر چلا گیا۔۔۔میں نے عاصم کوکال کی کہ ۔۔کہ حلیہ تبدیل کر کے رادھا کشن مند ر چلے آؤ ۔۔اور بڑے پجاری سے ملنے کا بولو۔۔وہ کچھ حیران تو ہو ا مگر سوال پوچھے بغیر بیس منٹ میں پہنچنے کا کہا ۔۔میں نے چھوٹے پجاری کو بتا دیا کہ آنے والے کو کمرہ میں پہنچا دیا جائے ۔۔۔۔
آدھے گھنٹے بعد عاصم میرے سامنے تھا ۔۔۔وہ مجھے پہلی نظر میں پہچان گیا تھا ۔۔۔۔لپٹ کر بولا سرکار بہت تیز جا رہے ہو۔۔۔کل تک ہمارا غریب خانہ ۔۔۔اور آج اس عالیشان کمرے میں ۔۔۔۔
میں نے اسے پوری صورتحال سمجھا دی ۔۔اور آگے کو پوچھا ۔۔وہ بھی سیریس ہو گیا ۔۔
راجہ صاحب ۔۔آپ نے آتے ہی اسپیڈ ماری ہے ۔۔اب تک پورا پلان میرے دماغ میں تھا ۔اس لئے کہیں نوٹ نہیں کیا تھا ۔۔اب ضرورت پڑی ہے تو بتاتا ہوں ۔۔۔۔
اس نے ایک کاغذ اٹھا اورمیرے سامنے بیٹھ گیا ۔۔اور پینسل سے ڈرائنگ بنانے لگا۔۔۔۔یہ راج گڑھ سے شملہ تک کا روڈ ہے ۔۔۔۔شملہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی دائیں طرف ایک روڈ نکل رہا ہے ۔۔جو کانگرا کی طرف نکل رہا ہے ۔۔۔اس روڈ پر ہی انڈر گراؤنڈ وہ ہیڈ کوارٹر بنا گیا ہے ۔۔۔۔جس کی میں نے رپورٹ دی تھی ۔۔یہ ہیڈ کوارٹر مکمل طور پر انڈرگراؤنڈ ہے ۔یہاں صرف کنٹرولنگ سسٹم ہے ۔۔۔۔باقی ڈرون طیارےشملہ کے ہی ایک آرمی بیس میں خفیہ طور پر رکھے ہیں ۔۔وہ وہیں سے ہی اڑتے ہیں ۔۔دوسرا اسٹاپ پٹھان کوٹ ائیر بیس میں ہے ۔۔ان دونوں جگہ پر ڈرون طیارے رکھے گئے ہیں ۔۔۔۔اب یہ شملہ والے ہیڈ کوارٹر میں۔سامنے مین انٹرنیس ہے ۔۔۔اسٹاف بھی اندر رہتا ہے ۔۔ایک مہینے بعد اسٹاف تبدیل ہوتا ہے ۔۔جب اسٹاف آتا ہے تو اندر بیٹھے ہوئے لوگ کیمرہ میں دیکھ کرانٹرنیس کھولتے ہیں ۔۔اور اب تک کی معلومات کے مطابق فیس ڈیٹکٹ کرنے کے علاوہ ریٹینا اسکینر بھی لگائے گئے ہیں ۔۔غلط بندہ اندر داخل کرنا مشکل ہے ۔اور پیچھے والی انٹرنس ایمر جنسی حالت میں کھولی جاتی ہے۔۔۔۔ہیڈ کوارٹر کے کئی کلو میٹر تک فضائی نگرانی اور زمینی نگرانی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔
عاصم نقشے کے ساتھ بتاتا بھی جار ہا تھا ۔۔۔۔۔آخر میں بات ختم کرکے وہ رکا۔۔۔۔اور سر اٹھایا ۔۔
ایک مہینے تک جو اسٹاف اندر رہتا ہے ۔۔اس کا کھانا پینا اور دوسری چیزیں کیسے پوری ہوتی ہیں ؟میں نے پوچھا ۔
عاصم مسکرایا ۔۔میں اسی سوال کی آپ سے توقع کر رہا تھا ۔۔یہاں راج گڑھ میں آرمی کا سپلائی سنٹر ہے ۔۔۔ہر دس دن بعد یہاں سے فروزن فوڈ ، اور دوسری چیزیں یہاں سے اسپیشل ٹرک سے بھیجے جاتے ہیں ۔ٹرک کا اپنا مخصوص روٹ ہے ۔۔۔۔اور اس ٹرک کی خاص بات یہ ہے کہ یہ باقاعدہ ٹریک کیا جاتا ہے ۔۔۔راستے میں کہیں بھی رک جائے تو فورا ہی چیکنگ کرتے ہیں ۔۔کسی بھی مشکل میں یہ ٹرک پورا خودہی بلاسٹ ہو جاتا ہے ۔یہ ٹرک پچھلی انٹرنس سے ہر دس دن بعد اندر داخل ہوتا ہے ۔۔۔اور اندر کا کوڑا کچرا لئے باہر آتا ہے ۔۔۔۔۔اب آپ کو اندازہ ہوگیا ہو گاکہ میں یہاں راج گڑھ میں کیا کر رہا ہوں ۔۔۔
اس ہیڈ کوارٹر کی سیکورٹی میجر راجیش کے ذمے ہے ۔۔یہ آرمی کی اسپیشل فورس سے انٹیلی جنس میں ٹرانسفر ہوا تھا ۔۔۔اور ٹرک لینے یہ خود آتا ہے ۔۔۔۔اس کے ساتھ بلیک کیٹ کمانڈوز کا دس رکنی دستہ ہے جن کو ہر قسم کے اختیارات بھی حاصل ہیں ۔۔۔
میں یہ سب معلومات سن کر سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔اب تک پلان بنانے کاکچھ خاص تجربہ نہیں تھا ۔۔بس فوری ایکشن میں ہی میرا دماغ تیز چلتا تھا۔۔۔۔مجھے سوچ میں دیکھ کر عاصم بولا ۔۔۔۔راجہ صاحب میں خوش قسمتی سے سپلائی سینٹر میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکا ہوں ۔۔۔۔۔آفیسر رینک کے کچھ لوگ ہیں ۔۔۔اب صرف اس ٹرک کے ڈرائیور کو ٹریس کرنے میں لگا ہوا ہوں ۔۔۔۔۔اگلی سپلائی کل ہی جانے والی ہے ۔۔آج رات یہ میجر راجیش راج گڑھ آئے گا اور صبح چار بجے ٹرک لے کر شملہ پہنچے گا۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے ہی کچھ کرنا ہو گا۔۔۔
میں نے عاصم سے پوچھا ۔۔۔اگر ہیڈکوارٹر سے میجر راجیش نہ آئے تب ٹرک کی چیکنگ کی کیا صورتحال ہو گی ۔۔۔۔۔۔
پھر کافی آسانی ہے ہم ٹرک میں اپنے لئے جگہ بنا لیں گے ۔۔۔سپلائی آفیسر ہی اپنا بندہ ہے ۔۔۔انہیں بھی میجر راجیش کا ہی ڈر ہوتا ہے۔۔ورنہ یہ تو اس میں بھی اپنے کھانچے نکا ل لیں ۔۔عاصم نے پرجوش آواز میں کہا۔
تو پھر سمجھو کہ اس مرتبہ میجر سپلائی لینے نہیں آئے گا۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔
عاصم اچھل ہی پڑا تھا ۔۔۔۔کیا مطلب ۔۔الہ دین کا چراغ تو آپ کو نہیں مل گیا ۔۔۔
الہ دین کا چراغ تو نہیں ملا مگر میجر راجیش کی بیوی ضرور مل گئی ہے ۔۔۔۔۔اور مجھے یقین ہے کہ وہ راجیش کو روکنے میں کامیاب ہو جائے گی ۔۔۔میں نے پچھلی رات کی کہانی عاصم کو سنا دی ۔۔وہ بھی ہنسنے لگا۔
اور پھر کہا کہ راجہ صاحب پلان بالکل واضح ہے ۔۔آپ راجیش کو کسی طرح رکوا دیں ۔۔۔سپلائی سینٹر والا اپنا بندہ ہے ۔۔۔۔اس سے ملنے کے بہانے جائیں گے اورٹرک کے نیچے ہی جگہ بناتے ہیں ۔۔۔میں دو چار بیلٹ کا انتظام کر لیتا ہوں جس سے ہم ٹرک کے نیچے خود کو باندھ سکیں ۔۔۔ایک مرتبہ ہیڈ کوارٹر میں داخل ہو جائیں تو پھر دیکھتے ہیں ۔۔۔۔میں نے بھی ہامی بھر لی ۔عاصم کو تجوری دکھائی کہ اس کا کیا کرنا ہے ۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولا آپ کی دولت ہے ۔۔آپ جانیں آپ کا کام ۔۔ہم تو پرندوں کی طرح ہیں ۔۔آج یہاں تو کل وہا ں ۔۔۔۔میں نے بیل بجا کرچھوٹے پجاری کو بلوا لیا۔۔وہ عاصم کو باہر چھوڑ کر آ گیا ۔۔