• HOME
  • AWARDS
  • Search
  • Help
Current time: 30-07-2018, 01:18 AM
Hello There, Guest! ( Login — Register )
› XXX STORIES › Urdu Sex Stories v
1 2 3 4 Next »

All In One وطن کا سپاہی

Verify your Membership Click Here

Pages ( 47 ): « Previous 1 ..... 3 4 5 6 7 8 9 ..... 47 Next »
Jump to page 
Thread Modes
All In One وطن کا سپاہی
Story Maker Offline
Rook Bee
****
Best Avatar
Joined: 26 Mar 2016
Reputation: 429


Posts: 7,858
Threads: 138

Likes Got: 1,568
Likes Given: 330


db Rs: Rs 170.52
#51
11-06-2016, 10:57 AM
انڈین آرمی کے جوان نے گرل فرینڈ کا فون نمبر پوچھا تو سرمد نے بتایا کہ ہماری بات سکائیپ یا ای میل سے ہی ہوتی ہے اس لڑکی نے کبھی اپنا فون نمبر نہیں دیا۔ فوجی جوان نے کہا اور تم اتنے پاگل ہو کہ منہ اٹھا کر اس سے ملنے جا رہے ہو؟؟؟ اس پر کاشف بولا سر 150 روپے کرایہ لگتا ہے جامنگر سے جونا گڑھ تک کا، اگر 150 روپے میں لڑکی مل جائے تو مزے اور نہ ملے تو چلو جونا گڑھ کی سیر کر کے واپس آجائیں گے۔ ویسے بھی ہم کونسا نوکری کرتے ہیں، اپنا کاروبار ہے اس لیے کبھی کبھی اس طرح کی عیاشی بھی کر لیتے ہیں۔ فوجی جوان نے غصے سے دونوں کی طرف دیکھا اور انہیں اپنے اپنے آئی ڈی کارڈ چیک کروانے کو کہا۔ دونوں نے بلا جھجک اپنے کارڈ نکال کر چیک کروا دیے جن میں دونوں کے اصلی نام ہی درج تھے۔ سرمد اور کاشف کا نام کسی بھی واردات میں کبھی نہیں آیا تھا اس لیے انکے ناموں سے فوجی کو کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہوا۔ 

کارڈ چیک کرنے کے بعد فوجی نے دونوں کو کارڈ واپس کیے اور غصے سے انکی طرف دیکھتے ہوئے بولا تھوڑی شرم کرو لڑکیوں کے پیچھے ٹائم برباد کرنے سے بہتر ہے بھارت ماتا کی خدمت کرو۔ چلو دفع ہوجاو اور بس میں بیٹھو۔ کاشف اور سرمد سر جھکائے بس میں بیٹھ گئے۔ بس میں بیٹھنے سے پہلے انہوں نے دیکھا کہ پیچھے ایک اور بس کو روکا ہے پولیس افسر نے۔ بس میں بیٹھنے کے بعد سرمد نے کاشف کو کہا ہو نہ ہو پچھلی بس میں تانیہ اور میجر دانش موجود ہونگے۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ اب یہ دونوں یہاں سے بچ سکتے ہیں۔ یہ پکڑے جائیں گے۔ کاشف نے کہا فکر نہیں کرو، میجر دانش اتنی آسانی سے انکے ہاتھ آنے والا نہیں وہ ضرور کوئی نا کوئی انتظام کر لے گا۔ سرمد نے کہا دیکھتے ہیں۔ اور پھر خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گیا۔ کچھ ہی دیر میں اس بس کی تمام سواریاں واپس سوار ہوگئیں اور بس نے دوبارہ سے جونا گڑھ کی طرف کا سفر شروع کر دیا تھا۔ 

================================================== ====

میجر دانش کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ہی ایک بیڈ لگا ہوا تھا جس پر دوسری ڈانسر بھی موجود تھی۔ دونوں ڈانسر ابھی تک اسی ڈریس میں تھیں جو انہوں نے ڈانس کرتے ہوئے پہن رکھا تھا۔ میجر دانش نے دل ہی دل میں سوچا کہاں میں مٹھ مارنے کا سوچ رہا تھا اور کہاں اب 2 ۔ 2 چوتیں مل گئی ہیں ایک ساتھ ہی۔ پہلی ڈانسر جسکا نام جولی تھا اس نے پیچھے مڑ کر دروازہ بند کیا اور کنڈی لگا دی۔ جبکہ دوسری ڈانسر جسکا نام سوزینا تھا وہ بیڈ سے اٹھی اور اپنا لک گھماتی ہوئی میجر دانش کے پاس آئی اور بولی ہم دونوں کو سنبھال لوگے صاحب؟؟ دانش بولا تمہارے ساتھ کوئی تیسری بھی آجائے تو میں تو اسے بھی سنبھال لوں گا۔ یہ سن کر جولی بولی صاحب کہتے سب ایسے ہی ہیں مگر 2 منٹ میں ہی اپنا مال نکال دیتے ہیں سب۔ 

میجر دانش نے اسکی بات کا جواب دینے کی بجائے اسے بازو سے پکڑا اور کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ جولی کے 38 سائز کے ممے دانش کے سینے میں دھنس گئے تھے ، جولی نے بھی جواب میں اپنے ہونٹوں سے دانش کے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا جب کہ سوزینا میجر دانش کےپیچھے آکر اسکی کمر سے لگ گئی۔ میجر کو اپنے سینے پر جولی کے ممے فیل ہو رہےتھے اور کمر پر سوزینا کے 36 سائز کے مموں کا احساس ہو رہا تھا۔ سوزینا نے میجر دانش کی کمرے سے لپٹے ہوئے اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اور میجر دانش کی قمیص کے بٹن کھول دیے اور پھر میجر دانش کی قمیص اٹھا ئی اور اتار دی۔ نیچے سے میجر کی بنیان بھی سوزینا نے اتار دی، اور میجر کی کمر پر اپنے ہونٹوں سے پیار کرنے لگی۔ جبکہ جولی اپنی زبان میجر کے منہ میں ڈالے اسکی زبان کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھی۔ کچھ دیر کی چوما چاٹی کے بعد میجر دانش نے جولی کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور اسکے مموں کے ابھاروں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے، جولی نے اپنی ٹانگیں میجر کی کمر کے گرد لپیٹ لیں اور اپنا سینہ آگے نکال دیا تاکہ مموں کا ابھار اور بھی واضح ہوسکے، جولی کے ہاتھ میجر کی گردن کے گرد لپٹے ہوئے تھے اور میجر نے اپنی زبان جولی کے مموں کے درمیان میں بننے والی لائین میں گھسا دی تھی۔ 

کچھ دیر جولی کی کلیویچ چاٹنے کے بعد میجر دانش نے جولی کو اپنی گود سے اتارا اور سوزینا کو اپنے پیچھے سے آگے کھینچ لیا اور اسکو جپھی ڈال کر اسکے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔ سوزینا کا جسم تھوڑا کھردرا تھا جبکہ جولی کا جسم نرم و ملائم اور بالوں سے پاک تھا۔ میجر دانش نے اپنا ایک ہاتھ سوزینا کے چوتڑوں پر رکھا اور انہیں دبانا شروع کر دیا اور دوسرا ہاتھ سوزینا کے مموں پر رکھ دیا اور اسکے ہونٹ چوستا رہا۔ اب جولی نیچے بیٹھی اور اس نے میجر دانش کی ٹانگوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیے۔ میجر دانش جو سوزینا کے ہونٹ چوسنے میں مصروف تھا اپنی ٹانگوں پر جولی کے ہاتھ کا لمس پا کر سرشار ہوگیا اور اسکا لن پہلے سے زیادہ سخت ہوگیا۔ جولی نے اپنا ہاتھ میجر کی تھائیز پر پھیرا اور وہاں سے اوپر لا کر اپنا ہاتھ میجر کے لن پر رکھ دیا۔ 
Goongiiii BehnAaaa
 •
      Website Find
Reply


Story Maker Offline
Rook Bee
****
Best Avatar
Joined: 26 Mar 2016
Reputation: 429


Posts: 7,858
Threads: 138

Likes Got: 1,568
Likes Given: 330


db Rs: Rs 170.52
#52
11-06-2016, 10:58 AM
اب جولی اپنے ہاتھ سے میجر کے لن کی لمبائی کا اندازہ کرنے لگی اور پھر خوشی سے بولی اری سوزینا صاحب کا لن تو ایک دم مست ہے۔ آج خوب مزہ آنے والا ہے۔ سوزینا کے جسم اور لبوں میں وہ مزہ نہیں تھا جو جولی کے نرم و ملائم جسم میں تھا۔ میجر نے سوزینا کو چھوڑا اور دوبارہ سے جولی کو اپنی گود میں اٹھا لیا، مگر اس بار گود میں اٹھانے سے پہلے میجر نے جولی کے جسم پر موجود ہاف بلاوز نما برا اتار دیا تھا۔ جولی نے نیچے سے اور کوئی چیز نہیں پہنی تھی۔ اسکے 38 سائز کے ممے دیکھ کر میجر کے منہ میں پانی آنے لگا۔ بڑے بڑے مموں پر نپل بھی بڑے بڑے تھے جن سے اندازہ ہوتا تھا کہ جولی کے مموں کا دودھ بہت سے لوگوں نے پیا ہوا ہے اور جی بھر کر پیا ہے۔ جولی کو گود میں اٹھانے کے بعد میجر نے اپنے ہونٹ جولی کے مموں پر رکھ دیے اور اور انکو چوسنے لگا۔ میجر کبھی جولی کے ممے چوستا اور کبھی اسکے نپل منہ میں لیکر جولی کا دودھ پینے لگتا۔ جولی میجر کی گردن میں ہاتھ ڈالے زور زور سے سسکیاں لے رہی تھی اور میجر کو کہ رہی تھی اور زور سے کاٹو صاحب، کھا جاو میرے مموں کو، پی لو میرا سارا دودھ۔۔۔۔

سوزینا اب میجر کے سامنے آکر نیچے بیٹھ گئی تھی اور شلوار کے اوپر سے ہی میجر کے لن سے کھیل رہی تھی۔ میجر کے لن نے مذی چھوڑنا شروع کر دی تھی جسکی وجہ سے میجر کی شلوار گیلی تھی۔ شلوار کا گیلا پن دیکھ کر سوزینا کے منہ میں پانی آگیا اور اس نے میجر کی شلوار کا ناڑا کھول دیا اور میجر کی شلوار میجر کے پاوں میں گرتی چلی گئی۔ شلوار گرتے ہی میجر کا 8 انچ کا لن سوزینا کے منہ کے بالکل سامنے تھے۔ اتنا بڑا لن دیکھ کر اس نے جولی کے چوتڑوں پر ایک چماٹ ماری اور بولی آج میری گاںڈ کی خیر نہیں جولی۔ صاحب کا لن بہت تگڑا ہے۔ 

گانڈ کا سن کر میجر دانش خوش ہوگیا کہ آج وہ کافی دنوں کے بعد گانڈ بھی مارے گا۔ آخری بار اس نے کوئی 3 ماہ قبل میجر علینہ کی گانڈ ماری تھی۔ 3 ماہ کے بعد آج پہلی بار اسکو گانڈ مارنے کا موقع ملے گا۔ یہ سنتے ہی میجر دانش نے اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ جولی کے مموں کو چوسنا شروع کر دیا اور اسکی سسکیوں میں بھی اضافہ ہوگیا۔ جبکہ نیچے بیٹھی سوزینا اب میجر دانش کے لن سے کھیل رہی تھی۔ کبھی وہ اس پر ہلکے ہکے تھپڑ مارتی تو کبھی میجر کے لن پر اپنی زبان پھیرنے لگی۔ سوزینا نے منہ میں تھوک جمع کیا اور گولا بنا کر میجر کے لن کی ٹوپی پر پھینک دیا اور پھر اپنے ہاتھوں سے اس تھوک کو پورے لن پر مسلنے کے بعد میجر کے لن کی ٹوپی منہ میں ڈال لی اور اسکے چوپے لگانے لگی۔ میجر کو اب مزہ آنے لگا تھا وہ جولی کے مموں سے لطف اندوز ہورہا تھا اور نیچے سوزینا کے منہ کی گرمی اسکے لوڑے کو سکون پہنچا رہی تھی۔ 

کچھ دیر بعد میجر چلتا ہوا جولی کو گود میں اٹھائے بیڈ کے قریب لے گیا اور اسے بیڈ پر لڈا دیا۔ بیڈ پر لٹانے کے بعد جولی نے نظریں اٹھا کر میجر کے لن کی طرف دیکھا تو اسکی آنکھوں میں بھی ایک چمک آگئی اور اسے امید پیدا ہوئی کہ آج یہ لوڑا اسکی چوت کا پانی نکال کر ہی چھوڑے گا۔ میجر دانش نیچے جھکا اور اسنے جولی کا گھاگھرا بھی اتار دیا۔ جولی کی چوت گیلی ہورہی تھی اور اسکی چوت کے لب پھولے ہوئے تھے اور لبوں کے درمیاں کافی فاصلہ تھا۔ اسکا مطلب تھا کہ جولی کافی مردوں سے چدائی کروا چکی ہے۔ میجر دانش جولی کے اوپر لیٹ گیا اور اسکے مموں کو پھر سے چوسنے لگا جبکہ سوزینا میجر کے اوپر آئی اور اسکے چوتڑ کھول کر میجر کی گانڈ پر زبان پھیرنے لگی۔ 

میجر کا یہ پہلا تجربہ تھا کہ اسکی گانڈ پر کوئی زبان پھیرے، اسے ایک جھرجھری سی آئی مگر پھر وہ جولی کے مموں کو چوسنے میں مصروف ہوگیا اور سوزینا میجر کی گانڈ پر زبان پھیرتی رہی، کچھ دیر کے بعد سوزینا نے میجر کی گانڈ کو چھوڑا اور اسکی ٹٹوں کو منہ مین لیکر چوسنے لگی۔ اب کی بار میجر کو مزہ آنے لگا تھا، پھر کچھ دیر کے بعد میجر بیڈ پر سیدھا لیٹ گیا اور جولی کو کہا کہ وہ اسکے اوپر آجائے، جولی کھڑی ہوئی اور میجر کے اوپر آئی تو میجر نے اسکو کولہوں سے پکڑ کر اپنے نزدیک کر لیا اور اسکی چوت کو اپنے منہ کے اوپر کر لیا اور اپنی زبان جولی کی چوت کے لبوں کے بیچ ڈال دی۔ جولی نے ایک سسکی لی اور میجر نے اپنی زبان جولی کی چوت میں چلانا شروع کردی۔ میجر کا لن اب پھر سے سوزینا کے منہ میں تھا جسے وہ بہت ہی شوق کے ساتھ چوس رہی تھی۔ کچھ دیر تک جولی کی چوت چاٹںے کے بعد میجر نے سوزینا کو نیچے اتارا اور سوزینا کو اپنے پاس بلا کر اسکا بھی بلاوز اتار دیا

سوزینا کے 36 سائز کے گول ممے میجر کو بہت پسند آئے ۔ جولی کی نسبت سوزینا کے ممے تھوڑے سخت تھے مگر میجر نے انکو بھی شوق سے چوسنا شروع کر دیا جبکہ جولی نے میجر کا لن اپنے منہ میں لیا اور لن چوسنے لگی۔ کچھ دیر تک سوزینا کے ممے چوسنے اور نپل کاٹنے کے بعد اب میجر نے سوزینا کا گھاگھرا بھی اتارا تو نیچے اس نے پینٹی پہن رکھی تھی۔ میجر نے سوزینا کی پینٹی کو غور سے دیکھا تو وہاں اسے ہلکا سا ابھار نظر آیا، میجر نے سوزینا کی پینٹی اتاری تو میجر کو ایک جھٹکا لگا۔ پینٹی اتارتے ہی سوزینا کا 4 انچ کا لن میجر کے سامنے تھا۔ یعنی سوزینا لڑکی نہیں بلکہ اسکا تعلق تیسری جنس سے تھا۔ یہ دیکھ کر میجر ایکدم کھڑا ہوگیا اور بولا یہ کیا بدتمیزی ہے؟؟؟ اس سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے، میجر کا یہ ری ایکشن دیکھ کر جولی فورا میجر کے پاس آئی اور بولی فکر نہیں کرو صاحب، آپ تسلی سے میری چوت مارو اور سوزینہ کی گانڈ مارو۔ سوزینہ بھی کھڑی ہوئی/ہوا اور بولی صاحب آج بہت دنوں کے بعد اتنا تگڑا لن دیکھا ہے، پلیز میری گانڈ مارے بغیر نہیں جانا، اور فکر نہیں کرو میں صرف جولی کی چوت میں اپنی یہ چھوٹی سی للی ڈالوں گی پلیز آج میری گانڈ کو سکون پہنچا دو اپنے اس 8 انچ کے لوڑے سے، یہ کہ کو سوزینا نیچے بیٹھ گئی اور دوبارہ سے میجر کا لن اپنے منہ میں لے لیا جو اب بیٹھ چکا تھا۔ مگر سوزینا کے منہ میں لیتے ہی لن نے پھر سے سر اٹھانا شروع کیا اور تھوڑی ہی دیر میں دوبارہ سے لوہے کے راڈ کی طرح سخت ہوگیا۔ 
Goongiiii BehnAaaa
 •
      Website Find
Reply


Story Maker Offline
Rook Bee
****
Best Avatar
Joined: 26 Mar 2016
Reputation: 429


Posts: 7,858
Threads: 138

Likes Got: 1,568
Likes Given: 330


db Rs: Rs 170.52
#53
11-06-2016, 10:58 AM
میجر نے دل میں سوچا کہ آخر ایک ہیجڑے کی گانڈ مارنے میں حرج ہی کیا ہے۔ یہ سوچ کر اس نے دوبارہ سے اپنی توجہ جولی کی طرف کی اور اسے بیڈ پر لیٹنے کو کہا، جولی فورا بیڈ پر لیٹ گئی تو میجر نے اسکی ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ دیں اور اپنا لن سوزینا کے منہ سے نکال کر جولی کی چوت پر رکھا۔ ایک ہی دھکے میں میجر کا 8 انچ کا لن جولی کی چوت کی گہرائیوں میں اتر چکا تھا۔ جولی کی چوت کھلی ہونے کی وجہ سے لن بغیر کسی رکاوٹ کے اسکی چوت میں اتر چکا تھا، جیسے ہی 8 انچ کے لن نے جولی کی چوت کی گہرائیوں میں جا کر ٹکر ماری اسکی چوت نے میجر کے لن کو جکڑ لیا۔ جولی نے اتنا لمبا لن ملتے ہی اپنی چوت کو ٹائٹ کر لیا تھا اور میجر نے بھی بغیر رکے دھکے مارنے شروع کر دیے تھے۔ میجر کے ہر دھکے کے ساتھ جولی کے 38 کے ممے اوپر نیچے ہلتے اور اسکے منہ سے آوازیں نکلتی آوچ، اف، مزہ آگیا صاحب، آج بہت دنوں بعد کسی مرد کا لن ملا ہے ورنہ یہاں تو سارے چھوٹی چھوٹی للیاں لے کر ہی آتے ہیں اور 2 منٹ میں ہی اپنا مال نکال دیتے ہیں۔ آہ آہ، صاحب اور زور سے چودو آج جولی کو۔۔۔ ایسے ہی دھکے لگاو صاحب، میری چوت کی پیاس بجھادو آج۔ 

جولی کی ہر آواز کے ساتھ میجر کے دھکوں میں تیزی آرہی تھی۔ گوکہ جولی کی چوت کافی کھلی تھی مگر جولی نے اپنی چوت کی دیواریں ٹائٹ کی تو میجر کو بھی چودائی کا مزہ آنے لگا۔ کچھ دیر ایسے ہی چودائی کرنے کے بعد میجر نے جولی کی چوت سے لن نکالا اور اسکو گھوڑی بننے کو کہا، جولی فورا اٹھی اور بیڈ پر گھوڑی بن گئی، میجر دانش اب بیڈ پر گھٹنوں کے بل کھڑا ہوا اور جولی کی چوت پر لن کی ٹوپی رکھ کر ایک دھکا مارا اور میجر کا لن جولی کی چوت میں غائب ہوگیا۔ اب میجر نے پھر سے زور دار پمپ ایکشن شروع کر دیا، اب کی بار میجر کے ہر دھکے پر میجر کا جسم جولی کے چوتڑوں سے ٹکراتا تو کمرے میں دھپ دھپ کی آوازیں آتیں اور میجر ان آوازوں سے لطف اندوز ہوتا اگلا دھکا اور بھی جاندار مارتا۔ 

میجر کے ان دھکوں سے اب جولی کی سسکیاں نکل گئی تھیں اور اب وہ محض آوچ آوچ کی آوازیں نکالنے کے علاوہ اور کچھ نہی کرہی رہی تھی۔ اب اسکی چوت میں اسکی طلب سے زیادہ زور دار گھسے لگ رہے تھے جنکو وہ بمشکل برداشت کر رہی تھی۔ جبکہ سوزینا اب جولی کے سامنے آگئی اور اپنی چھوٹی سی للی جولی کے منہ میں دے دی۔ جولی نے سوزینا کی للی کو منہ میں لیکر چوسنا شروع کیا اور تھوڑی ہی دیر میں اسکی للی میں تھوڑی سی سختی پیدا ہوگئی، سوزینا کی للی کا سائز ابھی بھی 4 انچ ہی تھا مگر اب اس میں تھوڑی سختی تھی۔ میجر کی نظریں کچھ دیر کے لیے سوزینا کی للی پر گئیں مگر پھر اس نے اپنی توجہ جولی کی چوت پر کی اور دھکوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب یہ دھکے جولی کی برداشت سے باہر ہونے لگے تو جولی کو لگا جیسے اسکے بدن میں سوئیاں چبھ رہی ہوں، وہ سمجھ گئی تھی کہ آج عرصے بعد اسکی چوت کسی لن کی چودائی سے پانی چھوڑنے لگی ہے ورنہ اس سے پہلے یا تو وہ فنگرنگ کر کے اپنی چوت کا پانی نکالتی تھی یا پھر سوزینا اپنی زبان سے جولی کی چوت کا چاٹ کر اسکا پانی نکالتی تھی۔ 

میجر کے چند مزید دھکے لگے اور جولی کی چوت میں سیلاب آگیا۔ جولی کے جسم کو کچھ جھٹکے لگے اور اسکی چوت نے ڈھیر سارا پانی نکال دیا۔ جب سارا پانی نکل گیا تو میجر نے دھکے لگانا بند کر دیے ۔ جولی نے اپنی چوت سے میجر کا لن باہر نکالا اور ایک بار میجر کا لن منہ میں لیکر اس پر موجود اپنا پانی چوسنے لگی۔ جب سارا پانی چوس لیا تو جولی دیوانہ وار میجر کے سینے کو چومنے لگی اور اسکے ہونٹوں کو بھی چومنے لگی۔ وہ میجر کے جسم کو دبا رہی تھی اور بار بار کہ رہی تھی تم اصل مرد ہو صاحب، آج تمہارے لن نے میری چوت کی پیاس بجھادی ہے اور ابھی بھی سسرا کھڑا ہے تھکا نہیں۔ یہ سن کر سوزینا نے جولی کو پیچھے کیا اور بولی چل پیچھے ہو اب صاحب کے لوڑے کی سواری کرنے کی باری میری ہے۔ سوزینا نے بھی میجر کے سینے پر ایک بار کس کی اور بولی صاحب کونسی پوزیشن میں میری گانڈ مارنا پسند کروگے۔؟؟ میجر نے کہا پہلے اپنی گانڈ کا نظارہ تو کرواو کیسی ہے۔۔۔ 

یہ سنتے ہی سوزینا گھوڑی بن گئی اور میجر نے اسکے چوتڑوں کو کھول کر اسکی گانڈ پر نظر ماری تو اسکا سوراخ بھی قدرے کھلا تھا۔ یعنی وہ بھی اپنی گانڈ باقاعدگی سے مرواتی تھی۔ میجر نے اسی پوزیشن میں سوزینا کی گانڈ پر اپنے لن کی ٹوپی رکھی اور دھکا مارنے کی کوشش کی مگر لن اندر نہیں گیا۔ تب جولی آگے آئی اور بولی صاحب پہلے تھوڑا چکنا کر لو، یہ کہ کر وہ سوزینا کی گانڈ پر جھکی اور اسکو چوسنے لگی، اس نے اپنی انگلی بھی سوزینا کی گانڈ میں ڈال دی تھی اور اسکی انگلی سے چودائی کرنے لگی پھر اس نے سوزینا کی گانڈ پر اپنا تھوک پھینکا اور انگلی سے تھوک سوزینا کی گانڈ کے اندر تک مسل دیا، جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ میجر کا لن ہاتھ میں پکڑے اسکی مٹھ مارنے میں مصروف تھی۔ 

پھر جولی نے میجر کے لن پر بھی تھوک پھینکا اور اسکو بھی چکناکر دیا۔ اب کی بار میجر نے سوزینا کی گانڈ پر لن رکھ کر ایک جھٹکا مارا تو آدھا لن سوزینا کی گانڈ میں اتر گیا تھا اور سوزینا کی چیخ نکلی اوئی ماں ۔ ۔ ۔ ۔ میں مرگئی۔ صاحب کیا تگڑا لن ہے تمہارا کیا کھاتے ہو؟؟؟ میجر دانش ہنستا ہوا بولا ابھی تو آدھا لن اندر گیا ہے باقی آدھا ابھی جانا ہے، اس پر سوزینا بولی اوئی ماں۔۔۔۔۔۔ اور زیادہ نہ ڈالنا صاحب میری تو گانڈ ہی پھٹ جائے گی۔ میجر دانش بولا تمہیں بھی تو شوق ہے گانڈ مروانے کا آج دل بھر کر اپنی گانڈ مروا، یہ کہ کر میجر نے ایک دھکا اور لگایا اور میجر کا سارا لن سوزینا کی گانڈ میں چلاگیا۔ اور سوزینا کی ایک اور چیخ نکلی۔ اب وہ اس طرح سسکیاں لے رہی تھی جیسے کسی بچے کو مرچیں لگ جائیں تو وہ بار بار سی سی کرتا ہے۔ میجر کے لن نے سوزینا کی گانڈ کے اندر واقعی مرچیں لگا دی تھیں۔ 

اب میجر نے سوزینا کی گانڈ مارنا شروع کی اور جولی سوزینا کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی اور اپنی گانڈ سوزینا کے آگے کر دی۔ سوزینا نے جولی کی گانڈ چوسنا شروع کی اور اس میں تھوک بھرنے لگی۔ سوزینا نے کہا لگتا ہے آج تیرا بھی صاحب سے گانڈ مروانے کا ارادہ ہے۔ اس پر جولی بولی ہیرے جیسا لوڑا آج ہاتھ لگا ہی ہے تو اسکا پورا استعمال تو ہونا ہی چاہیے نا۔ میجر نے کچھ دیر سوزینا کی گانڈ میں دھکے مارے اسکے بعد اپنا لن اسکی گانڈ سے نکالا جو اب تک سوج چکی تھی۔ اب میجر بیڈ کے ساتھ پڑے صوفے پر جا کر بیٹھ گیا اور سوزینا کو اپنی گود میں آنے کو کہا، سوزینا نے اپنی گانڈ میجر کے لن کے اوپر کی اور ٹوپا گانڈ کے سوراخ پر فٹ کر کے ایک ہی جھٹکے میں لن پر بیٹھ گئی، سوزینا نے اپنی ٹانگیں میجر کی کمر کے گرد لپیٹ لی تھیں اورمیجر اب خوب زور زور کے دھکے مار کر سوزینا کی گانڈ مار رہا تھا۔
Goongiiii BehnAaaa
 •
      Website Find
Reply


Story Maker Offline
Rook Bee
****
Best Avatar
Joined: 26 Mar 2016
Reputation: 429


Posts: 7,858
Threads: 138

Likes Got: 1,568
Likes Given: 330


db Rs: Rs 170.52
#54
11-06-2016, 10:59 AM
سوزینا کے 36 سائز کے ممے میجر کی آنکھوں کے سامنے لہرا رہے تھے جبکہ اسکا 4 انچ کا لن بلکہ للی میجر کی ناف سے ٹچ ہورہا تھا۔ میجر کو سوزینا کی گانڈ مارنے کا بہت مزہ آرہا تھا۔ ٹائٹ گانڈ نے میجر کے لن کو جکڑ رکھا تھا۔ اب میجر سوزینا کی گانڈ میں دھکے مارنے کے ساتھ ساتھ اسکے 36 کے اچھلتے مموں کو اپنے منہ میں لیکر چوس رہا تھا جبکہ سوزینا میجر کے لن کی تعریفیں کرتی نہیں تھک رہی تھی، مزہ آگیا صاحب، آپکے لوڑے نے تو میری گانڈ کا ستیاناس کر دیا ہے، ایسے ہی گانڈ مارتے رہو صاحب۔۔۔۔ 5 منٹ تک سوزینا کی گانڈ مارنے کے بعد میجر کے لن نے تھوڑا پھولنا شروع کیا اور اسکے بعد سوزینا کی گانڈ کے اندر ہی منی چھوڑ دی۔ جب میجر کا لن منی چھوڑ کر فارغ ہوچکا تو سوزینا گانڈ سے اتری اور میجر کا لن چوسنے لگی۔ میجر کے لن کی گاڑھی منی کا ہر قطرہ سوزینا نے اپنی زبان سے چاٹ لیا۔ جب میجر کا لن منی سے پاک ہوگیا تو سوزینا نے جولی کی طرف دیکھا اور بولی چل اب صاحب کو اپنا شو دکھاتے ہیں۔ 

یہ کہ کر سوزینا نے میجر دانش کو چھوڑا اور جولی کو لیکر بیڈ پر چلی گئی، جولی اور سوزینا اب 69 پوزیشن میں ایکدوسرے کے اوپر تھیں۔ سوزین نیچے لیٹی تھی اور جولی اسکے اوپر تھی، سوزینا کی زبان جولی کی چوت کے سوراخ پر تیز تیز چل رہی تھی جبکہ جولی سوزینا کی للی منہ میں ڈالے اسکے چوپے لگا رہی تھی۔ کچھ دیر کے بعد دونوں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئیں اور ایکدوسرے کے مموں کو باری باری چوسنے لگیں، کبھی سوزینا جولی کے ممے منہ میں لیکر چوستی تو کبھی جولی سوزینہ کے مموں کو منہ مین لیتی اور انکو چوسنے لگتی۔ پھر سوزینا نے جولی سے کہا چل اب مجھے بھی اپنی چوت کا مزہ دے۔ یہ سن کر جولی بیڈ پر لیٹ گئی اور اپنی ٹانگیں کھول دیں جبکہ سوزینا اسکی ٹانگوں کے درمیان بیٹھی اور اپنی للی کی ٹوپی سوزینا کی چوت پر رکھ دی۔ سوزینا کی للی ابھی تک 4 انچ کی ہی تھی مگر اس میں پہلے کی نسبت سختی زیادہ تھی، سوزینا نے ایک دھکا لگایا تو اسکی 4 انچ کی چھوٹی سی للی جولی کی چوت میں گم ہوگئی۔

اب سوزینا نے دھکے لگانے شروع کیے اور ساتھ ساتھ سوزینا کی چوت کے دانے پر انگلی پھیرنی شروع کی۔ سوزینا کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ اپنی للی جولی کی چوت میں ڈال کر اسے سکون ملا تھا مگر جولی کے چہرے پر مزے کے آثار نہیں تھے وہ بس سوزینا کی خواہش پوری کر رہی تھی۔ میجر دانش سوزینا اور جولی کا یہ شو دیکھ کر محضوض ہو رہا تھا اور آہستہ آہستہ اب اسکے لن نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ سوزینا اب جولی کے اوپر لیٹ گئی تھی اور اسکے ممے چاٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی گانڈ ہلا ہلا کر اپنی للی سے جولی کی چوت کی چودائی کر رہی تھی۔ یہ سین دیکھ کر میجرا کا لن مکمل کھڑا ہوگیا تھا، اب وہ بھی بیڈ پرآگیا اور اپنا لوڑا جولی کے منہ میں ڈال دیا ۔ جولی میجر کے لوڑَ میں دوبارہ جان دیکھ کر خوش ہوگئی۔ 

اس نے فورا ہی میجر کے لن کو چوسنا شروع کردیا۔ کچھ دیر بعد سوزینا نے کہا صاحب لن میرے منہ میں دو جولی آپکے ٹٹے چوسے گی۔ یہ سن کر میجر نے اپنی جولی کا چہرہ اپنی ٹانگوں کے درمیان کر لیا جولی نے فورا ہی میجر کے ٹٹوں پر اپنی زبان چلانا شروع کر دی اور پھر اسکے ٹٹوں کو منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیا جبکہ سوزینا جو جولی کے اوپر لیٹی اسکی چودائِ کر رہی تھی اس نے میجر کا لن منہ مین لیکر چوسنا شروع کر دیا تھا۔ 

جب میجر کا لن پہلے کی طرح سخت ہوگیا تو وہ کھڑا ہوا اور سوزینا کے پیچھے چلا گیا۔ پیچھے جا کر میجر نے سوزینا کی گانڈ پر تھوک پھینکا اور انگلی سے تھوک اسکی گانڈ کے اندر مسلنے لگا۔ سوزینا کی للی ابھی تک جولی کی چوت میں ہی تھی۔ اور سوزینا دھکے پر دھکے مار رہی تھی۔ میجر نے سوزینا کو دھکے روکنے کو کہا تو سوزینا نے دھکے روک دیے، اب میجر نے اپنے لن کی ٹوپی سوزینا کی گانڈ پر رکھی اور آہستہ آہستہ سارا لن سوزینا کی چوت میں اتار دیا جس سے اسکی سسکیاں نکلنے لگیں۔ اب میجر نے دھکے مارنے شروع کیے تو سوزینا نے میجر کے دھکوں کے ساتھ ساتھ جولی کی چوت میں دھکے مارنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سوزینا کو اب ڈبل مزہ آرہا تھا۔ ایک تو اسکی للی سوزینہ کی چوت میں تھی اور پیچھے سے میجر کا تگڑا لن سوزینا کی گانڈ مارنے میں مصروف تھا۔ 

5 منٹ تک اسی پوزیشن میں گانڈ مارنے کے بعد میجر نے سوزینا کی گانڈ سے لن نکالا اور سوزینا کو اپنی للی جولی کی چوت سے نکالنے کو کہا۔ سوزینا نے ایسے ہی کیا تو میجر نے اب جولی کو اپنی گود میں بٹھایا اور اپنا لن سوزینا کی چوت پر فٹ کر کے ایک ہی دھکے میں پورا لن اندر داخل کر دیا۔ سوزینا کی للی کے بعد جب میجر کا لن جولی کی چوت میں گیا تو جولی کی زور دار سسکی نکلی اور میجر نے بغیر رکے دھکے لگانے شروع کردیے۔ اب کی بار میجر کے دھکے پہلے کی نسبت بہت تیز تھے۔ میجر ایک بار پھر جولی کی چوت کا پانی نکالنا چاہتا تھا۔ 

محض 5 منٹ کے جاندار دھکوں نے اپنا کام دکھا دیا اور جولی نے میجر کی گود میں بیٹھے بیٹھے اپنی چوت کا پانی نکال دیا۔ چوت سے پانی پریشر کے ساتھ نکلا تو میجر کا پیٹ اور ٹانگیں جولی کے پانی سے بھر گئیں جنکو سوزینا نے اپنی زبان سے چاٹ لیا۔ جبکہ جولی میجر پر واری جا رہی تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایک ہی رات میں ایک لن نے 2 بار اسکی چوت کا پانی نکالا۔ وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پا رہی تھی اور بےتحاشا میجر کے جسم پر پیار کر رہی تھی۔ 

اب میجر نے سوزینا کو کہا کہ وہ اب دوبارہ سے جولی کی چوت میں اپنا لن ڈالے۔ سوزینا جو پہلے ہی تیار تھی فوران جولی کے اوپر چڑھ گئی۔ مگر میجر نے کہا ایسے نہیں، تم نیچے لیٹو اور جولی کو اپنے اوپر لٹاو پھر اسکی چوت میں اپنا لن ڈال کر اسکی چودائی کرو۔ جولی سمجھ گئی کہ اب اسکی چوت اور گانڈ کے سوراخ میں لن جانے والا ہے، وہ فورا ہی سوزینا کے اوپر آئی اور اسکی للی اپنی چوت کے سوراخ میں ڈال کر لیٹ گئی تاکہ پیچھے سے میجر اسکی گانڈ میں اپنا 8 انچ کا لوڑا ڈال سکے۔ میجر نے پیچھے سے آکر جولی کی گانڈ دیکھاور اس میں پہلے اپنی انگلی داخل کی تو جولی کی ہلکی سی سسکی نکلی، نیچے سے سوزینا کی للی جولی کی چوت میں مسلسل گھسے لگا رہی تھی۔ 

کچھ دیر جولی کی گانڈ میں انگلی کرنے کے بعد میجر نے اپنے لن کی ٹوپی سوزینا کے منہ میں دیر کر اسکو چکنا کروایا اور پھر دوبارہ سے پیچھے آکر لن کی ٹوپی جولی کی ٹائٹ گانڈ کے سوراخ پر رکھ اور ایک زور دار دھکا لگایا۔ میجر کی ٹوپی جولی کی گانڈ میں داخل ہوچکی تھی۔ اب کی بار جولی نے زور سے چیخ ماری ہائے میں مر گئی۔ صاحب یہ آپکا اپنا لن ہے یا کسی گدھے کا لگوا لیا ہے ؟؟ ہائے بھگوان اتنا موٹا لن میری گانڈ کیسے برداش کرے گی ۔۔۔ میجر نے تھوڑا سا انتظار کرنے کے بعد ایک اور دھکا لگایا تو میجر کا آدھے سے زیادہ لن جولی کی گانڈ میں تھا۔ اور اب کمرہ جولی کی چیخوں اور سسکیوں کی ملی جلی آوازوں سے گونج رہا تھا۔ 

میجر نے اب اپنے لن کو جولی کی گانڈ میں تسلسل کے ساتھ اندر باہر کرنا شروع کر دیا تھا اور جولی مزے کی بلندیوں پر پہنچ چکی تھی۔ میجر کے ہر دھکے پر جولی کے گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑ میجر کے جسم سے ٹکراتے تو دھپ دھپ کی آواز سے کمرہ گونجنے لگتا۔ نیچے سے سوزینا کی للی بھی اب جولی کی چوت کو مزہ دینے لگی تھی ، تھوڑی دیر کی چودائی کے بعد سوزینا کی للی نے پانی چھوڑ دیا اور اسکے دھکے لگنے بند ہوگئے۔ مگر جولی ابھی تک سوزینا کے اوپر ہی لیٹی تھی اور میجر کے جاندار دھکوں کا مزہ اپنی گانڈ میں لے رہی تھی۔

میجر نے 5 منٹ تک جم کر جولی کی گانڈ ماری آخر کا جولی کی گانڈ نے ہار مان لی اور وہ میجر سے بولی صاحب بس کر دو اب، میری گانڈ مزید آپکے لوڑَ کے دھکے برداشت نہیں کر سکتی۔ یہ سن کر میجر نے جولی کی گانڈ سے اپنا لن نکالا اور بیڈ سے نیچے اتر گیا، بیڈ سے نیچے اتر کر میجر نے جولی کو اپنی گود میں اٹھایا، جولی نے اپنی ٹانگیں میجر کی کمر کے گرد لپیٹ لی تھیں میجر نے اپنے لن کی ٹوپی کو جولی کی چوت پر رکھا اور جولی ایک جھٹکے مِں میجرکے لن پر اپنا وزن ڈال کر بیٹھ گئی، میجر کا لن جولی کی چوت میں گم ہوا تو میجر نے جولی کو گود میں اٹھائے اسکی چودائی شروع کی۔ میجر نے اپنے ہاتھ جولی کے چوتڑوں پر رکھے ہوئے تھے اور جولی نے میجر کی گردن میں اپنے بازو ڈالے ہوئے تھےجولی اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر اپنی چودائی کروا رہی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ میجر کو ہونٹوں کو دیوانہ وار چوس رہی تھی، اسکو میجر کی مردانگی پر پیار آرہا تھا جو جولی کی چوت کا 2 بار پانی نکلوا چکا تھا اور اب بھی وہ جولی کی چوت میں دھکے مار رہا تھا۔ 

میجر مزید 5 منٹ تک جولی کو گود میں اٹھائے اسکی چوت میں لن سے کھدائی کرتا رہا، آخر کار میجر کا لن پھولنے لگا اور جولی کی چوت نے بھی میجر کے لن پر اپنے پیار کی بارش کرنے کا ارادہ کر لیا۔ مزید 4، 5 جاندار دھکوں سے جولی کی چوت نے میجر کے لن پر برسات کر دیاور جولی کے جسم کو جھٹکے لگنے لگے، ساتھ ہی میجر کے جسم کو بھی جھٹکے لگے اور اس نے اپنی گرما گرم منی جولی کی چوت میں ہی نکال دی۔ جب میجر کے لن سے ساری منی نکل گئی تو میجر نے جولی کو گود سے اتارا اور بیڈ پر ڈھے گیا۔ سوزینا اور جولی اب دونوں ہی میجر کے جسم پر ہاتھ پھیر رہی تھیں اور اسے پیار کر رہی تھیں۔ کچھ دیر کے بعد سوزینا نے کمرے میں موجود دوسرا دروازہ کھولا اور 3 منٹ بعد کمرے میں واپس آئی تو اسکے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ تھا۔ سوزینا نے گرم گرم دودھ میجر کو پلایا جسے پی کر میجر ہشاش بشاش ہوگیا۔ 

اب میجر نے اپنے کپڑے پہنے اور دوسرے شخص کا اٹھایا ہوا بٹوہ نکال کر اس میں سے 1000 ، 1000 کے دو نوٹ نکالے اور جولی اور سوزینا کو دیے۔ دونوں نے نوٹ لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ صاحب آج عرصے بعد کسی اصلی مرد نے جم کر چودائی کی ہے آپ سے ہم پیسے نہیں لیں گی۔ آپ جب چاہو آکر ہماری چودائی کر سکتے ہو، میجر نے ایک بار پھر پیسے دینے پر اصرار کیا مگر دونوں میں سے کسی نے پیسے نہیں لیے البتہ دوبارہ آکر چودائی کرنے کی دعوت ضرور دی۔ میجر نے پیسے واپس بٹوے میں رکھا اور جولی کے ہونٹوں پر ایک پیار بھری کس کر کے کمرے سے نکل گیا۔

================================================== ==============
Goongiiii BehnAaaa
 •
      Website Find
Reply


Story Maker Offline
Rook Bee
****
Best Avatar
Joined: 26 Mar 2016
Reputation: 429


Posts: 7,858
Threads: 138

Likes Got: 1,568
Likes Given: 330


db Rs: Rs 170.52
#55
12-06-2016, 01:09 AM
دوسری طرف تانیہ نے دوسرے شخص کو اپنے جسم کے جلوے دکھا دکھا کر پاگل کر دیا تھا۔ تانیہ کا ڈانس مکمل ہوا تو اس نے اس شخص کو جو آرمی کا آفیسر تھا بازو سے پکڑا اور اپنے ساتھ ایک کمرے میں لے گئی۔ وہ شخص بھی لہراتا ہوا نشے میں دھت تانیہ کی گانڈ کو گھورتا اسکے پیچھے پیچھے کمرے میں چلا گیا۔ کمرے میں پہنچ کر تانیہ نے اس شخص کو بیڈ پر لٹایا اور خود اسکے ساتھ لیٹ کر اسکی شرٹ اتار دی اور اسکے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ اس شخص کی پینٹ سے اسکا کھڑا ہوا لن دیکھ کر تانیہ نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اور اسکے نپل پر اپنی زبان پھیرنے لگی۔ تانیہ اپنی زبان کی نوک اس شخص کے نپل پر پھیر رہی تھی جس پر اس شخس کو بہت مزہ آرہا تھا۔

کچھ دیر اس شخص کے نپل چوسنے کے بعد تانیہ نے اپنی ایک ٹانگ اس شخص کی ٹانگوں کے اوپر رکھ لی اور اسکی طرف کروٹ لے کر اسے ہونٹ چوسنے لگی۔ وہ شخص بھی نشے میں دھت تانیہ کے ہونٹ چوس رہا تھا اور اپنے ایک ہاتھ سے تانیہ کے چوتڑوں کو بھی دبا رہا تھا۔ کچھ دیر ہونٹ چوسنے کے بعد تانیہ نے اس شخص کی طرف دیکھا اور اسکے کان کے قریب اپنے ہونٹوں کو لیجا کر آہستہ سے بولی صاحب اپنا نام تو بتاو۔۔۔ وہ شخص نیم کھلی آنکھوں کے ساتھ تانیہ کو دیکھنے لگا اور پھر بولا لڑکی تم خوش قسمت ہو کہ آج تم کیپٹن مکیش کی بانہوں میں ہو۔ آج رات تمہیں اتنا مزہ دوں گا کہ تم ہمیشہ یاد رکھو گی۔ یہ کر اس نے تانیہ کے برا سے نظر آنے والے مموں پر اپنی نظریں جما دیں اور اپنا ایک ہاتھ تانیہ کے نرم نرم مموں پر رکھ کر انہیں دبانے لگا۔ 

تانیہ نے بھی اپنی ایک ٹانگ سے کیپٹن مکیش کا لن دبانا شروع کر دیا اور تھوڑی دیر کے بعد پھر بولی صاحب آج رات مجھے ایسے چودنا کہ جیسے پہلے کسی نے نا چودا ہو۔ کیپٹن نے کہا تجھے میں اپنی رنڈی بنا کر چودوں گا، فکر نہ کر تیری چوت بار بار پانی چھوڑی گے۔ اب تانیہ نے کہا صاحب کیا آپ روز آتے ہو یہاں؟؟؟ کیپٹن نے تانیہ کے مموں پر نظریں جمائے کہا نہیں میں تو ممبئی کا رہنے والا ہوں، ایک پاکستانی کتے کو پکڑے کے لیے یہاں آیا تھا مگر کرنل صاجب نے بتایا کہ وہ یہاں سے چلا گیا ہے اس لیے آج صبح کی فلائٹ سے میں واپس ممبئی جا رہا ہوں۔ یہ سن کر تانیہ نے نے اپنا ہاتھ کیپٹن مکیش کے لن پر رکھ لیا اور اسکو پینٹ کے اوپر سے ہی سہلانے لگی۔ تانیہ کے ہاتھوں کو اپنے لن پر محسوس کر کے کیپٹن کا لن اور بھی زیادہ اکڑنے لگا تھا۔

اب کی بار تانیہ نے کہا صاحب ممبئی میں کہاں رہتے ہو آپ؟؟ مجھے ممبئی کے کسی ڈانس کلب میں نوکری دلوا دو نا۔ میں ساری زندگی آپکی داسی بن کر رہوں گی۔ پھر روز ڈانس کلب میں ڈانس کرنے کے بعد آپکو اپنے جسم کی گرمی سے سکون دیا کروں گی۔ تانیہ کی یہ بات سن کر کیپٹن نے کہا تیرے جیسی رنڈیاں جامنگر میں ہی ٹھیک ہیں، ممبئی کے ڈانس کلب میں ہائی کلاس ڈانسرز ہوتی ہیں جو باہر سے ڈانس سیکھ کر آتی ہیں۔ ویسے بھی میں شادی ہوں۔ میری پتنی میرے ساتھ ہے صبح وہ میرے ساتھ ہی ممبئی جائے گی اور ممبئی میں میرا کسی لڑکی کے ساتھ کوئی چکر نہیں۔ میری پتنی کو تمہارے بارے میں پتا چل گیا تو وہ تمہیں جان سے مار دے گی۔ بس آج کی رات ہی میرے لوڑے سے اپنی چوت کی پیاس بجھا اور پھر مجھے بھول جا۔ 

یہ سن کر تانیہ مسکرائی اور بولی اچھا میں آپکے لیے جوس لے کر آتی ہوں۔ جوس پی کر آپ فریش ہوجاو پھر میرے جسم سےخوب کھیلنا۔ یہ کہ کر تانہ اپنی گانڈ ہلاتی ہوئی کمرے میں پڑے فریج کی طرف گئی اور وہاں موجود فریج سے ایک جوس کا ڈبہ نکالا اور گلاس میں ڈال کر اس میں ایک گولی بھی ڈالی اور اچھی طرح ہلا کر کیپٹن کے پاس آگئی کیپٹن جو اب بیڈ پر بیٹھ چکا تھا اس نے تانیہ کے چوتڑوں پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنی طرف کھینچ کر اپنی گود میں بٹھا لیا۔ تانیہ بھی بلا جھجک اسکی گود میں بیٹھ گئی ، کیپٹن نے اپنے ہونٹ تانیہ کے مموں پر رکھے اور انہیں چوسنے لگا جب کہ جوس کا گلاس تانیہ کے ہاتھ میں ہی تھا۔ اس نے بھی کیپٹن کو پورا موقع دیا اپنے ممے چوسنے کا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب کیپٹن نے تانیہ کے مموں کو چوس چوس کر لال کر دیا اور اسکا برا اتارنے لگا تو تانیہ نے کیپٹن کو روک دیا اور بولی صاحب پہلے یہ جوس پی لو پھر میرے سارے کپڑے اتار دینا۔ 

یہ سن کر کیپٹن نے تانیہ کے ہاتھ سے جوس کا گلاس پکڑا اور ایک ہی گھونٹ میں سارا گلاس خالی کر دیا۔ اب کیپٹن نے دوبارہ سے تانیہ کے مموں کو گھورنا شروع کیا جو ابھی تک اسکی گود میں بیٹھی تھی۔ پھر کیپٹن کا ہاتھ تانیہ کی نرم و ملائم کمر پر رینگتا ہوا اسکے برا کی ڈوریوں تک آیا جن کو تانیہ نے گرہ لگا کر باندھا ہوا تھا۔ کیپٹن نے اسکے برا کی ڈوریاں کھول کر برا اتار دیا اور دور پھینک دیا۔ تانیہ کے 36 سائز کے بھرے ہوئے خوبصورت ممے کیپٹن نے دیکھے تو وہ تو پاگل ہی ہوگیا۔ مکھن ملائی جیسے گورے چٹے ممے اور پھر انکی شیپ دیکھ کر کیپٹن کی رال ٹپنکنے لگی تھی۔ کیپٹن نے اپنی زبان نکالی اور تانیہ کے چھوٹے چھوٹے نپلز پر پھیرنے لگا۔ تانیہ کی ایک سسکی نکلی اور اس نے اپنا ہاتھ کیپٹن کی گردن کے گرد لیپٹ لیا ، تانیہ نے کچھ دیر پہلے میجر دانش کے لن کو اپنی گانڈ پر محسوس کیا تھا تب سے اسکی چوت میں کھجلی ہو رہی تھی اور اب اپنے نپلز پر کیپٹن مکیش کی زبان لگنے سے تانیہ مدہوش ہونے لگی۔ 

کیپٹن نے اپنے ایک ہاتھ سے تانیہ کا بایاں مما پکڑ لیا تحا اور اسے دبا رہا تھا جبکہ دوسرا مما کیپٹن کے منہ میں تھا۔ وہ کبھی اپنے منہ سے تانیہ کا مما چوستا تو کبھی اپنے دانتوں سے تانیہ کے نپل کو کاٹتا۔ ابھی کیپٹن نے جی بھر کر تانیہ کے مموں پر پیار نہیں کیا تھا مگر اسکو اپنا سر بھاری بھاری محسوس ہونے لگا۔ اسے چکر آنے لگے تھے۔ وہ کچھ دیر کو رکا اور پھر دوبارہ سے تانیہ کے مموں سے دودھ پینے لگا، مگر پھر اسکو ایسے لگا جیسے وہ اپنے ہوش کھو رہا ہے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے کیپٹن بیڈ پر بے ہوش پڑا تھا جبکہ تانیہ اپنے کپڑے اتار کر دوسرے کپڑے پہن رہی تھی۔ تانیہ جن کپڑوں میں یہاں آئی تھی وہی کپڑے پہن کر اس نے کیپٹن کے کپڑوں کی تلاشی لی اور اس میں سے جو کچھ نکلا اسکو اپنی شرٹ کے گلے میں ہاتھ ڈال کر برا کے اندر رکھ لیا۔ اب تانیہ نے ایک بار میجر کی پینٹ کی طرف دیکھا جہاں کچھ دیر پہلے لن کھڑا ہوا نظر آرہا تھا مگر اب وہاں کسی لن کے آثار نہیں تھے۔ 

اب تانیہ نے آخری بار کیپٹن کی پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہاں اسے ایک کار کی چابی مل گئی۔ تانیہ نے چاپی اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالی اور کمرے سے پرس اٹھا کر اس میں کچھ ضروری چیزیں ڈال کر باہر نکل گئی۔ باہر نکل کر اب وہ میجر دانش کو ڈھونڈنے لگی۔ تھوڑی ہی دیر میں اسے میجر دانش نظر آگیا جو جولی اور سوزینا کے کمرے سے نکل رہا تھا۔ تانیہ نے اسے ترچھی نظروں سے دیکھا اور بولی یہ جناب آپ اس کمرے میں کیا کر رہے تھے۔ میجر نے تانیہ کو سر سے پیر تک دیکھا اور بولا ابھی جو تمہارے ہاٹ ہاٹ ڈانس نے اور تمہارے نرم نرم جسم نے آگ لگائی تھی اسے بجھا رہا تھا۔ اپنے جسم کی تعریف سن کر تانیہ تھوڑا سا شرمائی اور اسکے چہرے پر لالی آگئی۔ پھر اس نے دانش کو کہا یہاں ہم کرن وشال سے بچتے پھر رہے ہیں اور جناب کو جسم کی گرمیاں نکالنے کی پڑی ہوئی ہے۔ یہ سن کر میجر نے کہا شکر کرو ادھر ہی نکال لی ہے جسم کی گرمی، ورنہ تمہارا ڈانس دیکھ کر جو میرا حال ہوا ہے راستے میں تمہیں ہی پکڑ لینا تھا میں نے۔ یہ سن کر تانیہ نے مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے میجر کو گھور کر دیکھا اور بولی شرم کرو کچھ۔ یہ کہ کر وہ میجر دانش کا ہاتھ پکڑے اسے اپنے ساتھ لے گئی اور ایک کمرے کے سامنے جا کر رک گئی اس نے کمرے کا دروازہ کھولا اور میجر دانش کو اندر آنے کو کہا۔ میجر اندر آگیا تو تانیہ نے کمرہ باہر سے بند کر لیا اور میجر کو بتایا کہ وہ شخص کیپٹن مکیش ہے اور وہ ممبئی سے تمہیں پکڑنے ہی آیا تھا مگر کرنل وشال نے آرمی کو آرڈر دے دیا ہے کہ میجر دانش جامنگر سے اب فرار ہوچکا ہے لہذا جامنگر میں اسکی تلاش ختم کر دی جائے۔ 

تانیہ نے مزید بتایا کہ اب وہ کیپٹن مکیش صبح کی فلائٹ سے انڈین ائیر لائنز کے ذریعے اپنی بیوی کے ساتھ ممبئی جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ساتھ ہی اس نے اپنی جینز کی جیب سے گاڑی کی چابی نکالی اور میجر دانش کی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگی ۔ میجر نے پوچھا یہ کیا؟ تو وہ بولی کیپٹن کی گاڑی کی چابی۔ دانش نے کہا تم پاگل ہو کیپٹن کی گاڑی پر ہم فوری پکڑے جائیں گے اس نے فوری سے پہلے اپنی گاڑی گم ہونے کی اطلاع دے دینے ہے۔ اس پر تانیہ نے اٹھلاتے ہوئے کہا مسٹر صرف تم ہی عقلمند نہیں، تھوڑی عقل ہم میں بھی ہے۔ میں نے کیپٹن کو نیند کی گولی دے دی ہے اب وہ کل رات سے پہلے نہیں اٹھے گا جبکہ ہم صبح ہوتے ہی یہاں سے نکل جائیں گے۔ اسکے بعد تانیہ نے میجر کے سامنے ہی اپنی برا میں ہاتھ ڈالا تو میجر اوپر اٹھ کر تانیہ کی برا میں جھانکنے کی کوشش کرنے لگا، تانیہ کا ہاتھ برا میں گیا اور واپس آیا تو اس میں کچھ کاغذات تھے۔ تانیہ نے میجر کو اپنے برا کی طرف یوں دیکھتے ہوئے پایا تو بولی ابھی ابھی جولی کے کمرے سے نکلے ہو، اس نے تمہاری پیاس نہیں بجھائی کیا جو ابھی بھی ندیدوں کی طرح مجھے دیکھ رہے ہو؟؟؟ 

یہ سن کر مجر نے کہا جو بات تم میں ہے وہ جولی میں کہاں۔ یہ کہ کر میجر نے تانیہ کو آنکھ ماری اور اسکے ہاتھ سے کاغزات لیکر دیکھنے لگا۔ یہ کیپٹن مکیش کےممبئی کے ٹکٹ تھے۔ ایک کیپٹن مکیش جب کہ دوسرا اسکی بیوی کا تھا۔ میجر نے دونوں ٹکٹ سنبھال کر اپنے پاس رکھ لی، مزید کاغزات میں کیپٹن مکیش کا آئی ڈی کارڈ اور آرمی کے کچھ کارڈز تھے۔ ان میں ایک کارڈ کرنل وشال کا بھی تھا ۔ میجر دانش نے کارڈ پر میجر کا نام پڑھا اور نمبر دیکھا۔ لینڈ لائن نمبر کے ساتھ سٹی کوڈ بھی موجود تھا کوڈ ممبئی کا ہی تھا اسکا مطلب تھا کہ کرنل وشال اصل میں ممبئی میں ہوتا ہے مگر میجر دانش کو پکڑے کی غرض سے جامنگر آیا ہے۔ 

کرنل وشال کا کارڈ دیکھ کر میجر دانش نے فوری فیصلہ کیا کہ اب چھپ چھپ کر بھاگنے کی بجائے کرنل وشال کو ٹف ٹائم دینے کا وقت آگیا ہے، اب کرنل سے بچ کر بھاگنا نہیں بلکہ اس پر حملہ کرنا ہے۔ یہ سوچ کر میجر نے تانیہ کو کہا کہ اب کچھ دیر کے لیے سوجاتے ہیں نیند پوری کر کے صبح صبح یہاں سے نکلیں گے اور آگے کا پلان بنائیں گے۔ 

تانیہ نے اوکے کہا اور سیدھی سامنے پڑے بیڈ پر جا کر لیٹ گئی اور فوری طور پر دانش کی طرف منہ کر کے بولی تم نے وہیں صوفے پر سونا ہے بیڈ پر صرف میں لیٹوں گی۔ دانش تانیہ کی بات سن کر مسکرایا اور بولا جیسے محترمہ کا حکم۔ یہ کہ کر میجر پاس پڑے صوفے پر لیٹ گیا اور کچھ ہی دیر میں اسکے خراٹوں کی آوازیں آنے لگیں تھیں۔ 

================================================== ===================

جاری ہے۔
Goongiiii BehnAaaa
 •
      Website Find
Reply


Story Maker Offline
Rook Bee
****
Best Avatar
Joined: 26 Mar 2016
Reputation: 429


Posts: 7,858
Threads: 138

Likes Got: 1,568
Likes Given: 330


db Rs: Rs 170.52
#56
12-06-2016, 01:10 AM
جب سے وجی نے مری کے ہوٹل میں پنکی کے ہونٹوں کا رس چوسا تھا وہ اسکا پہلے سے زیادہ دیوانہ ہوگیا تھا، ہونٹوں کے ساتھ ساتھ وجی نے کافی دیر اپنے ہاتھ سے پنکی کے نرم نرم چوتڑ بھی دبائے تھے اور ایک بار اسکے مموں کے ابھاروں پر بھی اپنا ہاتھ رکھا تھا جسکو پنکی نے فورا ہی ہٹا دیا تھا۔ وجی بھی اب اپنی بہن عالیہ اور والدین کے ساتھ کراچی واپس آچکا تھا۔ مگر اسکے ذہن سے ابھی تک پنکی کے ساتھ گزرے ہو چند خوبصورت لمحات مٹ نہیں پائے تھے۔ وہ ہر وقت پنکی کے بارے میں سوچتا اور اسکی خوبصورتی اور ہونٹوں کے لمس کو یاد کرتا رہتا۔ کراچی سے واپس آکر اسکی ایک دو بار پنکی سے ملاقات تو ہوئی مگر اسے کوئی ایسا موقع نہیں مل پایا تھا کہ وہ دوبارہ سے پنکی کے لبوں سے اپن لب ملا سکے۔ اسکی پنکی سے ملاقات کے دوران اسکی بہن عالیہ بھی ساتھ تھی اور اس نے اپنے بھائی کی بے تابی کو محسوس کر لیا تھا۔ عالیہ نے اس بارے میں پنکی سے بات کرنے کی ٹھان لی اور ایک دن موقع غنیمت جان کر اور پنکی کو خوشگوار موڈ میں دیکھ کراس نے پنکی سے پوچھ ہی لیا کہ کیا وہ وجی سے پیار کرتی ہے؟؟؟ 

عالیہ کے اس اچانک سوال پر پنکی حیران بھی ہوئی اور ساتھ میں اسکے پنک پنک گالوں پر لالی بھی اتر آئی اور اس نے شرماتے مسکراتے اپنا منہ نیچے کر لیا۔ عالیہ کہ پنکی کی اس ادا پر بے تحاشہ پیار آیا اور اس نے عالیہ کا چہرہ اپنے ہاتھ سے اوپر اٹھاتے ہوئے کہا، واہ مہارانی صاحبہ کا تو خوشی سے لال ہوگیا ہے۔ اب کی بار پنکی عالیہ کو کوئی جوان دینے کی بجائے اسکے گلے سے لگ گئی۔ یہ عالیہ کے لیے واضح جواب تھا کہ پنکی اسکے بھائی وجی سے پیار کرتی ہے۔ اب عالیہ نے پنکی کو بتایا کہ وہ اس بارے میں اپنے ممی ڈیڈی سے بات کرے گی اور وہ لوگ پھر تمہارے گھر تمہارا ہاتھ مانگنے آئیں گے اور میں تمہیں اپنی بھابھی بنا کر اپنے گھر لے آوں گی۔ یہ سن کر پنکی کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے اور ایک بار پھر وہ عالیہ سے گلے لگ گئی مگر بولی کچھ نہیں۔ 

پھر واقعی کچھ دن کے بعد وجی کے والدین عالیہ کے ساتھ پنکی کے گھر آئے اور پنکی کی والدہ سے پنکی کا ہاتھ مانگ لیا۔ پنکی کو جب اس بارے میں پتا لگا تو وہ شرم کے مارے کچن میں ہی چھپ گئی۔ عفت نے اپنی نند کو یوں شرماتے دیکھا تو اسکا ماتھا چوم لیا اور بولی چلو جا کر اپنے ہونے والے ساس سسر کو چائے پیش کرو۔ پنکی نے سر پر دوپٹہ رکھا اور شرماتی ہوئی کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ساس سسر کے سامنے جا کر چائے رکھی۔ عالیہ نے پنکی کو آتے دیکھا تو وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور پنکی نے چائے ٹیبل پر دکھ دی تو عالیہ نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا اور اسکی پیشانی پر ایک بوسہ دیا۔ پھر پنکی نے آگے بڑھ کر اپنے ہونے والے سسر جی سے پیار لیا پھر ساس سے پیار لینے گئی تو ساس صاحبہ نے پنکی کو اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا۔ پنکی نے کہا کہ میں آپکو چائے بنادوں تو اسکی ہونے والی ساس نے کہا چائے عالیہ بنا لے گی تم ادھر ہمارے پاس بیٹھو۔

خود پنکی کی امی بھی بہت خوش تھیں اور عفت بھی خوش تھی۔ کچھ ہی دیر میں نادیہ بھی کمرے سے تیار ہو کر نکلی اور بڑی خوشدلی کے ساتھ آنے والے مہمانوں سے ملی اور پنکی کے سر پر پیار بھرا ہاتھ پھیرا۔ کافی دیر سب لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ پھر عمیر بھی گھر آگیا تو گھر میں مہمانوں کو دیکھ کر حیران ہوا۔ ابھی تک اسکو کسی نے نہیں بتایا تھا کہ اسکی چھوٹی بہن کا رشتہ آیا ہے۔ عمیر کی نظر عالیہ پر پڑی تو اسنے فورا ہی پہچان لیا، وہ مری میں عالیہ سے ملا تھا۔ عمیر بھی سب مہمانوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ پھر وجی کے ابو نے عمیر سے بات شروع کی اور اپنے آنے کا مقصد عمیر کے سامنے رکھ دیا۔ عمیر نے ایک نظر اپنی والدہ کی طرف دیکھا جنکے چہرے پر خوشی کے واضح آثار موجود تھے اور پھر پنکی کی طرف دیکھا جو چھوئی موئی بنی اپنی ساس کے ساتھ بیٹھی تھی۔ نادیہ بھی عمیر کے ساتھ آکر بیٹھ چکی تھی اس نے بھی عمیر کو رضامندی کا اظہار کرنے کو کہا اور عفت کی بھی یہی مرضی تھی۔

سب کی مرضی دیکھ کر عمیر نے وجی کے ابو کہ ہاں کر دی مگر ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ہم ابھی کوئی رسم نہیں کریں گے۔ پہلے دانش بھائی واپس آجائیں تو انکے واپس آنے کے بعد منگنی کی رسم بھی ہوجائے گی اور پھر مناسب موقع دیکھ کر شادی بھی کر دیں گے۔ تب تک آپکی پنکی ہمارے پاس امانت ہے۔ عمیر کے اس فیصلے سے سبھی گھر والے خوش تھے اور وجی کے ابو نے بھی اس پر رضامندی کا اظہار کر دیا کہ بڑے بھائی کی موجودگی خوش آئند ہوگی کسی بھی رسم کے لیے۔ اسکے بعد سب لوگ بیٹھے گھنٹوں باتیں کرتے رہے۔ رات کا ٹائم ہوا تو مہمانوں نے اجازت چاہی، اور تھوڑی ہی دیر میں تینوں مہمان گھر سے چلے گئے۔ مہمانوں کے جانے کے بعد عمیر نے بھی پنکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسکو پیار دیا اور ڈھیروں دعائیں دی اور پنکی وجی کا چہرہ اپنی آںکھوں میں سجائے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ 
Goongiiii BehnAaaa
 •
      Website Find
Reply


Story Maker Offline
Rook Bee
****
Best Avatar
Joined: 26 Mar 2016
Reputation: 429


Posts: 7,858
Threads: 138

Likes Got: 1,568
Likes Given: 330


db Rs: Rs 170.52
#57
12-06-2016, 01:10 AM
دو گھنٹے بعد پنکی کے موبائل پر کال آئی، سکرین پر وجی کا نام تھا، پنکی نے کال اٹینڈ کی تو آگے سے وجی کی پیار بھری آواز سنائی دی۔ وجی کی آواز سنتے ہی پنکی کے چہرے پر شرم کے بادل چھا گئے ۔ پہلے تو پنکی سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔ مگر پھر آہستہ آہستہ اسکی جھجھک ختم ہوئی تو پنکی کو تب ہوش آیا جب ایک گھنٹے کے بعد کال خود ہی بند ہوگئی۔ اسکے بعد وجی کی دوبارہ سے کال آئی اور اس نے اگلے دن پنکی کو کالج ٹائم کے دوران ملنے کا کہا۔ پنکی تھوڑی دیر انکار کرنے کے بعد وجی کی بات ماننے پر راضی ہوگئی اور دونوں نے پروگرام بنایا کہ کالج ٹائم کے دوران دونوں کہیں دور لانگ ڈرائیو پر جائیں گے۔ اسکے بعد کال بند ہوگئی اور پنکی وجی کے سپنے دیکھنے لگی۔


کرنل وشال امجد کو جونا گڑھ کی طرف روانہ کرنے کے بعد خود اس کچے راستے پر آگے موجود قصبوں کی طرف جا رہا تھا۔ اپنے ساتھ موجود ایک گاڑی کو اس نے جونا گڑھ کی طرف بھیج دیا تھا تاکہ وہ امجد "سردار سنجیت سنگھ" کی جاسوسی کر سکے۔ گوکہ کرنل وشال کا امجد پر شک ختم ہوگیا تھا اور اسے یقین تھا کہ یہ دانش کا ساتھی نہیں بلکہ دانش نے اسکو زبردستی اپنے ساتھ رکھا، مگر پھر بھی کرنل کے ذہن میں کہیں نہ کہیں بے یقنینی کی کیفیت بھی موجود تھی۔ اسی لیے اس نے اپنے چند آدمیوں کو حکم دیا کہ وہ جونا گڑھ تک امجد کا پیچھا کریں اور دیکھیں کہ وہ راستے میں یا جونا گڑھ پہنچ کر کسی سے رابطہ تو نہیں کرتا۔ اور اگر وہ کسی سے رابطہ کرے تو فوری طور پر پتا لگایا جائے کہ اس نے کن لوگوں سے رابطہ کیا اور انکو کیا کہا۔ 

کچھ ہی دیر کے بعد کرنل وشال سنگھ اپنے قافلے کے ساتھ ایک چھوٹے سے قصبے میں موجود تھا۔ رات کا وقت تھا، قصبے کے لوگ دور سے ہی گاڑیوں کی لائٹس دیکھ کر اٹھ گئے تھے۔ ایسے چھوٹے قصبوں میں عموما مرد حضرات گھر کے باہر ہی سوتے ہیں۔ لہذا جیسے ہی انکی آنکھوں میں لائٹ پڑی انکی آنکھ کھل گئی اور جرائم پیشہ افراد ہونے کی وجہ سے انہوں نے فورا ہی اپنے اپنے گھروں سے اپنی بندوقیں نکال لی تھیں کہ مبادا آنے والا ہمارے مویشی یا دوسرا قیمتی سامان ہتھیانے کی کوشش کریں گے۔ جب گاڑیاں قصبے میں پہنچ گئیں تو انہیں احساس ہوا کہ یہ آرمی اور پولیس کی گاڑیاں ہیں۔ اگر خالی پولیس کی گاڑیاں ہوتیں تو وہ پولیس پر فورا ہی فائرنگ کھول دیتے مگر آرمی سے پنگا لینے کی ہمت ان میں نہیں تھی اس لیے قصبے کے سرپنچ نے سب لوگوں کو اپنی بندوقیں نیچی رکھنے کا کہ دیا۔

کرنل وشال بھی دور سے ہی اندازہ لگا چکا تھا کے سامنے کھڑے لوگوں کے ہاتھوں میں بندوقیں ہیں۔ مگر وہ جانتا تھا کہ جب انہیں پتا لگے گا کہ یہ آرمی کی گاڑیاں ہیں تو وہ کوئی غلطی نہیں کریں گے۔ اس لیے کرنل بلا خوف آگے بڑھتا رہا۔ آبادی سے کچھ دور کرنل نے گاڑیاں رکوا دیں اور گاڑی سے اتر کر ان لوگوں کی طرف بڑھنے لگا۔ کرنل کے ارد گرد مسلح فوجی موجود تھے جو کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار تھے جبکہ پولیس والے بھی پیچھے پیچھے اپنی بندوقوں کا رخ قصبے والوں کی طرف کیے چلے آرہے تھے۔ 

کرنل وشال نے ان لوگوں کے پاس پہنچ کر انہیں پرنام کیا تو انکا سر پنچ آگے آکر کھڑا ہوگیا اور اپنا تعارف کروایا۔ کرنل وشال نے اونچی آواز میں انہیں بتایا کہ آپ لوگ فکر نہیں کریں ہمارا یہاں آنے کا مقصد آپ لوگوں کو نقصان پہنچانا ہرگز نہیں بلکہ ہم یہاں ایک دہشت گرد کو ڈھونڈنے آئے ہییں جو پاکستان سے ہماری سرحد میں داخل ہوا ہے اور ایک بار پکڑَ جانے کے باوجود ہماری قید سے بھاگ نکلا۔ اب اسکے ساتھ ایک دہشت گرد اور بھی موجود ہے اور ساتھ میں ایک لڑکی بھی ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق وہ جامنگر بائی پاس سے جونا گڑھ جانے کی بجائے اس کچے راستے پر اسی قصبے کی طرف آئے ہیں۔ اگر آپکو انکے بارے میں کوئی معلومات ہیں تو ان کو پکڑنے میں ہماری مدد کریں ۔ آپکی مدد سے ہی ہم ان دشمنوں کو پکڑ سکتے ہیں۔ 

کرنل کی بات ختم ہوئی تو قصبے کے سرپنچ نے کرنل وشال کو کہا، ہم لوگ چھوٹے موٹے جرائم ضرور کرتے ہیں، مگر کسی دشمن کو پناہ دینے کی سوچ بھی نہیں سکتے۔ دشم ملک کا کوئی بھی شخص ہمارے ہتھے چڑھ جائے تو ہم اسکو زندہ نہ چھوڑیں اسکو پناہ دینا یا اسکی مدد کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کرنل وشال نے پھر سے کہا کہ یہ دہشت گرد پیسے کا استعمال کر کے لوگوں کو خریدتے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ میں سے کسی نے پیسے کے لیے انکی مدد کی ہو۔ اگر آپکو کسی ایسے شخص کے بارے میں معلوم ہے تو ہمیں بتائیں اور اگر آپ نے کسی انجان شخص کو اور اسکے ساتھ لڑکی کو دیکھا ہے تو وہ بھی بتائیں۔ سر پنچ نے اس بار کرنل کو للکارا اور غصے سے بولا کہ ایک بار کہ دیا ہم کسی دہشت گرد کی مدد کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ 

ہمیں پیسوں سے خریدا نہیں جا سکتا۔ ہم چور ہیں ڈاکو ہیں مجرم ہیں مگر دیش دروہی ہرگز نہیں۔ ہم اپنے دشمن ملک سے آئے کسی بھی اتنگ وادی کی مدد کرنا پاپ سمجھتے ہیں۔ آپ بار بار ہم پر یہ الزام لگا کر ہماری توہین کر رہے ہو۔ اب کی بار کرنل وشال نے سپاٹ لہجے میں کہا سرپنچ جی آپ بالکل ٹھیک فرما رہے ہیں۔ مگر سرکار ہمیں اس ملک کی حفاظت کرنے کی پگار دیتی ہے۔ اور جب تک ہم اپنی تسلی نہیں کر لیتے ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔ ہمیں اس قصبے میں موجود ہر گھر کی تلاشی لینی ہوگی کیا پتا کسی نے گھر میں چھپا کر رکھا ہو؟؟ کرنل کی بات سن کر قصبے کے سرپنچ نے باقی لوگوں کی طرف دیکھا اور ان سے مخاطب ہوکر بولا میں کرنل صاحب کو تلاشی لینے سے ہرگز نہیں روکوں گا یہ انکا فرض ہے، مگر انکی تلاشی لینے سے پہلے ہی مجھے بتادو اگر کسی نے پناہ دی ہے کسی دہشت گرد کو تو انہیں ابھی کرنل صاحب کے حوالے کر دیا جائے۔ میرا وعدہ ہے کہ اسکو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ لیکن اگر تلاشی کے دوران کسی کے گھر سے دہشت گرد برآمد ہوئے تو اسکی خیر نہیں پھر۔
Goongiiii BehnAaaa
 •
      Website Find
Reply


Story Maker Offline
Rook Bee
****
Best Avatar
Joined: 26 Mar 2016
Reputation: 429


Posts: 7,858
Threads: 138

Likes Got: 1,568
Likes Given: 330


db Rs: Rs 170.52
#58
12-06-2016, 01:11 AM
تمام لوگوں نے یک زبان ہوکر کہا کہ کرنل کو تلاشی لینے دی جائے، ہم نے کسی کو بھی پناہ نہیں دی۔ یہ سن کر کرنل وشال نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا اوروہ 2، 2 کی ٹولیوں میں وہاں موجود گھروں میں گھس کر تلاشی لینے چلے گئے جبکہ کرنل وشال اپنے 2 ساتھیوں کے ساتھ باہر ہی موجود رہا۔ قریب آدھا گھنٹہ کرنل کے آدمی قصبے میں موجود گھروں کی تلاشی لینے کے بعد ناکام لوٹ آئے اور بتایا کہ سر یہاں کوئی موجود نہیں۔ سر پنچ نے فخریہ نظروں سے کرنل کی طرف دیکھا جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا ہم دیش دروہی ہرگز نہیں۔ 

کرنل نے سرپنچ کا شکریہ ادا کیا اور اگلے قصبے کی طرف جانے کا ارادہ کیا، ابھی وہ واپسی کے لیے مڑا ہی تھا کہ ایک عورت بھاگتی ہوئی آئی اور اس نے بتایا کہ اسکے ساتھ والے گھر میں ایک لڑکا رہتا ہے جسکی عمر 18 سال ہے۔ اسکا باپ شہر سے باہر گیا ہوا ہے اور کچھ ہی دیر پہلے میں نے اسے اپنی گاڑی میں کہیں جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اسکے ساتھ گاڑی میں ایک لڑکی بھی موجود تھی جسکی شکل میں صحیح سے دیکھ نہیں پائی اور وہ آدھے گھنٹہ پہلے یہاں سے نکلے ہیں۔ 

کرنل نے اسکی بات سن کر دوبارہ سے اپنے اس اہلکار کو بلا لیا جو جامنگر اور اس قصبے کے بارے میں معلومات رکھتا تھا۔ کرنل نے اس عورت کو کہا کہ اس آدمی کو راستہ سمجھاو کہ وہ کس طرف گئے ہیں۔ تو اس عورت نے اپنی گجراتی زبان میں اسے ایک راستہ سمجھایا جو چھوٹے چھوٹے گاوں اور قصبوں سے ہوتا ہوا جونا گڑھ کے قریب جا کر نکلتا تھا۔ اس اہلکار نے کرنل کو بتایا کہ یہ سارا راستہ کچہ ہے اور جہاں مین روڈ سے 3 گھنٹے میں یہ فاصلہ طے ہونا ہے اس کچے راستے سے 4 گھنٹے لگ جائیں گے۔ کرنل وشال نے فوری اپنے ساتھیوں کو گاڑیوں میں بیٹھنے کا کہا اور سب سے آگے اپنی گاڑی رکھتے ہوئے اس اہلکار کو اپنے ساتھ بٹھا لیا تاکہ وہ راستہ بتا سکے۔ کرنل کے قافلے میں سب کی سب پجارو یا ڈالے وغیرہ تھے جو کچے راستے پر خاصی رفتار سے اپنا سفر طے کر سکتے تھے اسکے برعکس کار کے لیے یہ سفر مشکل تھا اور کار زیادہ رفتار کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ اس لیے کرنل کو یقین تھا کہ ان لوگوں کے جونا گڑھ پہنچنے سے پہلے کرنل وشال ان تک پہنچ جائے گا۔ 


امجد سست رفتاری کے ساتھ جونا گڑھ کا سفر طے کر رہا تھا۔ اسے علم تھا کہ راستے میں ابھی اور بھی پولیس کے ناکوں پر اسے روکا جائے گا مگر اب وہ مطمئن تھا کہ جب کرنل وشال اسے نہیں پہچان پایا تو یہ عام پولیس والے سرسری طور پر گاڑی کی چیکنگ کرنے کے بعد اسکو چھوڑ دیں گے۔ اور ہوا بھی یہی، امجد کو راستے میں جہاں کہیں بھی روکا گیا اس نے اپنا راشن کارڈ نکال کر دکھایا جس پر سردار سنجیت سنگھ کا نام درج تھا، پولیس اہلکاروں نے امجد کی گاڑی کی تلاشی لی اور اسکے آگے جانے دیا۔ یہ کام ہر پولیس ناکے پر ہوا اور امجد بغیر پریشان ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ ہر ناکے پر اپنی چیکنگ کرواتا رہا۔ 

اپنی طرف سے وہ مکمل مطمئن تھا مگر اسکو فکر تھی تو دانش اور تانیہ کی۔ اس نے اپنے طور پر تو کرنل وشال کو چکمہ دے دیا تھا اور اور اب کرنل وشال کچے راستوں سے ہوتا ہوا میجر دانش کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر امجد جانتا تھا کہ ہر ناکے پر بسوں کو بھی چیک کیا جائے گا، اور جس بس میں اس نے میجر دانش اور تانیہ کو بٹھایا تھا اسکی بھی چیکنگ ہوگی۔ اور اگر کہیں یہ لوگ پکڑے گئے تو سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ پہلے آئی ایس آئی کی طرف سے اسکو میجر دانش کی رہائی کا ٹارگٹ ملا تھا، اس سے پہلے کہ امجد اپنا کوئی پلان بناتا میجر دانش خود ہی چھوٹ آیا تھا، اور اب نہ صرف اسکے پکڑے جانے کا دوبارہ سے خوف تھا بلکہ ساتھ میں تانیہ بھی پکڑی جاتی تو مسئلہ اور بھی بڑھ سکتا تھا۔ صرف یہی ایک بات تھی جو امجد کو پریشان کر رہی تھی۔ 

امجد کو جونا گڑھ کی طرف جاتے ہوئے کوئی ایک گھنٹے سے اوپر کا ٹائم گزر چکا تھا اس دوران امجد نے نوٹ کیا تھا کہ ایک گاڑی مسلسل امجد کا پیچھا کر رہی ہے۔ گو کہ پیچھے آنے والی گاڑی کافی فاصلے پر تھی مگر پھر بھی امجد کا شک تھا کہ یہ گاڑی اسی کے پیچھے آرہی ہے جو ہو نہ ہو کرنل وشال نے ہی بھیجی ہے۔ امجد نے اپنی تسلی کے لیے چند مقامات پر اپنی رفتار بہت دھیمی کر دی اور انتظار کرنے لگا کہ پیچھے آنے والی گاڑی آگے نکلتی ہے یا نہیں۔ مگر امجد کا شک درست نکلا، جیسے ہی امجد اپنی رفتار دھیمی کرتا پیچھے آنے والی گاڑی بھی آہستہ ہوجاتی اور جب امجد اپنی گاڑی کی رفتار بڑھاتا تو پیچھے آنے والی گاڑی بھی رفتار تیز کر لیتی۔ 

اب جونا گڑھ 1 گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ رات کے 3 یا 4 بجے کا ٹائم ہورہا تھا اور امجد کو ٹائلٹ جانے کی بھی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔ کچھ ہی فاصلے پر ایک موڑ تھا اور موڑ سے آگے ایک گیس پمپ تھا۔ امجد نے اچانک ہی اپنی گاڑی کی رفتار بڑھا دی اور موڑ مڑنے کے بعد گاڑی گیس پمپ کی طرف لے گیا۔ یوں تو اسے یقین تھا کہ پیچھے آنے والی گاڑی اسی کا پیچھا کر رہی ہے، مگر وہ پھر بھی مکمل تسلی کرنا چاہتا تھا۔ موڑ مڑتے ہی امجد نے اپنی گاڑی سڑکے سے اتار کر کھڑی کر دی مگر پمپ سے دور رکھی کیونکہ وہ چاہتا تھا پیچھے آنے والی گاڑی جیسے ہی موڑ مڑے اسکو امجد کی گاڑی نظر آجائے۔ 
Goongiiii BehnAaaa
 •
      Website Find
Reply


Story Maker Offline
Rook Bee
****
Best Avatar
Joined: 26 Mar 2016
Reputation: 429


Posts: 7,858
Threads: 138

Likes Got: 1,568
Likes Given: 330


db Rs: Rs 170.52
#59
12-06-2016, 01:11 AM
گاڑی سڑک سے اتار کر امجد گاڑی سے نکلا پمپ پر موجود ٹائلٹ میں چلا گیا۔ بغیر ٹائم ضائع کیے جب امجد باہر نکلا تو اس نے دیکھا پیچھے آنے والی گاڑی اب امجد کی گاڑی سے کچھ آگے کھڑی تھی اور ایک فوجی پمپ پر کھڑا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا جیسے کسی کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہو۔ امجد ٹائلٹ سے نکلا اور ٹک شاپ پر چلا گیا وہاں سے ایک جوس کا ڈبہ اور بسکٹ کا پیکٹ اٹھا کر باہر آنے لگا۔ دکاندار نے پیسے مانگے تو امجد نے باہر کھڑے فوجی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ باہر میرے افسر کھڑے ہیں وہ دیں گے پیسے۔ فوجی کو دیکھ کر دکاندار خاموش ہوگیا۔ اور اپنے کاموں میں لگ گیا۔ امجد خاموشی سے باہر آیا مگر اب کی بار وہ سیدھا فوجی کے پاس گیا۔ فوجی نے امجد کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو وہ انجان بن کر ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے وہ امجد کو جانتا ہی نہیں اور نہ ہی وہ امجد کی تلاش میں تھا۔ امجد اس فوجی کے پاس گیا اسکو ست سری آکال کہا اور پھر بولا کہ صاحب جی میرے پاس کھانے کے پیسے نہیں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے میں نے یہ جوس کا ڈبہ اور بسکٹ اس دکان سے لیے ہیں آپ انہیں میری جگہ پیسے دے دیں؟؟

فوجی نے غصے سے امجد کی طرف دیکھا اور بولا میں کیوں دوں تمہاری جگہ پیسے؟؟؟ امجد بولا صاحب جی بڑی مہربانی ہوگی آپکی۔ مجھے آپکے بڑے صاحب جی نے جونا گڑھ جانے کا حکم دیا ہے اگر پیسے نہیں دیں گے تو یہ دکاندار مجھے یہاں سے جانے نہیں دے گا اور مجھے دیر ہوجائے گی۔ اگر آپ پیسے دے دیں تو میں ابھی چلا جاوں گا اور ٹائم کے ساتھ آپکے بڑے صاحب کی کی بھیجی ہوئِ جگہ پہنچ سکوں گا۔ اس فوجی نے یہ بات سنی تو بولا اچھا اچھا ٹھیک ہے تم جاو میں دے دوں گا پیسے۔ امجد شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی گاڑی میں آکر بیٹھ گیا اور اور بسکٹ کا پیکٹ کھول کر سامنے رکھ لیا اور گاڑی سٹارٹ کر کے دوبارہ سے سفر شروع کر دیا۔ اس فوجی نے جب دیکھا امجد جا رہا ہے تو وہ فورا دکان پر گیا اسکو پیسے دیے اور دوبارہ سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر امجد کا پیچھا کرنے لگا۔ 

اس ساری کروائی میں امجد صرف اس فوجی کا اعتماد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ نہ تو اسے سخت بھوک لگی تھی اور نہ ہی وہ اتنا بے شرم تھا کہ راہ چلتے کسی سے بھی پیسے مانگ لے۔ لیکن یہ حرکت کر کے امجد نے فوجی کے دل میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ اگر یہ کوئی دہشت گرد ہے تو اسکو تو فوج سے دور بھاگنا چاہیے، مگر یہ بغیر خوف کھائے ایک فوجی کے پاس آ کر اس سے مدد مانگ رہا ہے۔ اور امجد کا یہ تیر ٹھیک نشانے پر جا کر لگا تھا۔ فوجی نے پیچھا کرتے ہوئے اب کرنل وشال کو کال کی اور اسکو ساری صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ امجد کسی بھی طور پر ان لوگوں کے ساتھ ملوث نہیں ہوسکتا۔ بس مجبوری کی وجہ سے یہ انکے ساتھ تھا۔ کرنل وشال نے بھی امجد کی طرف سے گرین سگنل دے دیا مگر پیچھا جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کیا معلوم وہ لوگ اس سے پٹرول پمپ پر ملنے آئیں۔ لہذا تم دھیان رکھنا جیسے ہی کوئی آئے اسکو فورا دھر لینا۔ 

ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد امجد جونا گڑھ شہر کے پہلے پٹول پمپ پر اپنی گاڑی کھڑی کر کے کھڑا تھا۔ جبکہ پیچھے آنے والا فوجی پٹرول پمپ سے کافی دور اپنی گاڑی کھڑی کر کے کھیتوں میں سے ہوتا ہوا پٹرول پمپ کی دیوار کے قریب پہنچ گیا تھا اور امجد پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ امجد کی پیٹھ فوجی کی طرف تھی ، وہ اس بات سے تو بے خبر تھا کہ فوجی کہاں کھڑا ہے مگر اتنا ضرور جانتا تھا کہ کہیں نہ کہیں سے وہ امجد پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ جب پٹرول پمپ پر کھڑے ہوئے امجد کو 5 سے 6 گھنٹے ہوگئے اور وہاں کوئی نہ آیا تو اس فوجی نے دوبارہ کرنل وشال کو فون کیا تو کرنل وشال نے اب اسے جونا گڑھ شہر میں داخل ہونے کا کہا اور وہاں موجود آرمی کیمپ میں بلا لیا۔ اور ساتھ ہی اسکو حکم دیا کہ سردار سنجیت سنگھ کو کہو اب وہ اس پٹرول پمپ سے نکل جائے اور کسی محفوظ جگہ پر جا کر چھپ جائے۔ 

فوجی نے ایسے ہی کیا، وہ واپس اپنی گاڑی تک گیا اور پھر گاڑی میں بیٹھ کر واپس پٹرل پمپ پر آیا وہاں رک کر وہ امجد سے ملا۔ امجد نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا صاحب جی آپ وہی ہو نہ جس پہلے بھی پٹرول پمپ پر ملے تھے مجھے؟؟ تو فوجی نے کہا ہاں میں وہی ہوں۔ میرے صاحب نے مجھے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ سردار جی سے کہو اب یہاں کوئی دہشت گرد نہیں آنے والا آپ بے فکر ہو کر جا سکتے ہو یہاں۔ مگر اپنی حفاظت کے لیے زیادہ باہر نہ نکلنا بلکہ کسی محفوظ ٹھکانے پر جا کر چھپ جاو۔ امجد نے فوجی کا شکریہ ادا کیا مگر اپنے ذہن میں موجود پریشانی کو دور کرنے کے لیے فوجی سے پوچھا کہ وہ دہشت گرد جن کو آپ ڈھونڈ رہے ہیں وہ مل گئے یا نہیں؟ فوجی نے کہا نہیں معلوم نہیں انکو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ وہ کہیں بھی نہیں مل پائے اور نا ہی اب انکا کوئی سراغ مل رہا ہے۔ یہ سن کر امجد کو تسلی ہوئی اور اس نے سوچا کہ دانش اور تانیہ خیریت سے جونا گڑھ پہنچ چکے ہونگے۔ کیونکہ امجد کوئی 6 گھنٹے پٹرول پمپ پر رک کر بظاہر دہشت گردوں کا انتظار کرتا رہا تھا اور وہ بس جس میں اس نے دانش اور تانیہ کہ بٹھایا تھا کوئی 7 گھنٹے قبل جونا گڑھ پہنچ چکی ہوگی۔ اب امجد نے فوجی کو بتایا کہ یہاں اسکے کچھ دوست رہتے ہیں میں انکی طرف جا کر چھپ جاوں گا اس وقت وہی ایک محفوظ جگہ ہے میرے لیے۔ فوجی نے اسکی بات پر بغیر کوئی توجہ دیے اوکے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔ 

امجد بھی اب پٹرول پمپ سے نکلا اور جونا گڑھ میں موجود اپنے ٹھکانے کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ اب اسکا پیچھا نہیں ہوگا اور وہ اطمینان کے ساتھ سرمد کاشف، دانش اور تانیہ کو مل سکتا ہے اور پھر آگے کا پلان بنایا جائے گا۔ کچھ ہی دیر میں مختلف راستوں سے ہوتا ہوا امجد اپنے مطلوبہ ٹھکانے پر پہنچ چکا تھا۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی اس کالونی میں امجد نے ایک فلیٹ کرائے پر لے رکھا تھا جو اس نے کشمیر کی ایک فیملی کو کرائے پر دیا ہوا تھا۔ اور امجد کا جب دل کرتا وہ یہاں آجاتا تھا۔ 

امجد جب اس گھر میں پہنچا تو سامنے کمرے میں رانا کاشف اور سرمد گھوڑے بیچ کر سو رہے تھے۔ امجد نے ادھر ادھر دیکھا مگر نہ تو اسے تانیہ کہیں نظر آئی اور نہ ہی میجر دانش۔ پھر امجد دوسرے کمروں میں گیا مگر وہاں بھی اسے کوئی دکھائی نہ دیا تو اوپر والے پورشن میں کشمیری فیملی سے امجد نے جا کر دانش اور تانیہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ رات 3 بجے کے قریب بس 2 آدمی ہی آئے ہیں جو اس وقت نیچے ہی ہونگے انکے علاوہ اور کوئی نہیں آیا یہاں پر۔ یہ خبر امجد پر پہاڑ بن کر ٹوٹی تھی۔ جو پہلا خیال اسکے ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ کرنل وشال تانیہ اور میجر کو پکڑ چکا ہے اور پٹرول پمپ سے واپس جانے کا کہنا اور اپنے اعتماد کا اظہار کرنا کرنل کی کوئی چال ہوگی تاکہ وہ امجد کا پیچھا کر کے باقی لوگوں کر بھی پکڑ سکیں۔ یہ خیال ذہن میں آتے ہی امجد کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہونا شروع ہوگئے تھے۔ 


صبح 6 بجے تانیہ کی آنکھ کھلی تو وہ بیڈ سے اٹھ کر دانش کو اٹھانے صوفے کی طرف بڑھی مگر وہاں دانش موجود نہیں تھا۔ وہ اپنے کمرے سے نکل کر جولی کے کمرے میں گئی مگر وہاں جولی اور سوزینا گھوڑے بیچ کر سو رہی تھیں۔ پھر تانیہ نے کچھ مزید کمرے چیک کے اور باہر گلی میں بھی دیکھ کر آئی مگر دانش کا کہیں اتا پتا نہیں تھا۔ تانیہ واپس اپنے کمرے میں آئی اور تو میجر دانش سامنے ہی بیڈ پر بیٹھا تھا۔ تانیہ میجر کو کمرے میں دیکھ کر حیران ہوئی اور بولی کہ کہاں تھے تم ؟؟؟ میجر نے کہا تمہیں اس سے کیا تم تو ایسے سوئی پڑی تھی جیسے اپنی اماں جی کے گھر سوئی ہوئی ہو۔ میجر کی بات سن کر تانیہ نے کہا کل سارا دن تو تمہارے ساتھ خوار ہوتی رہی ہوں کی کہیں بھاگ رہی تھی تو کبھی کہیں تھکاوٹ کی وجہ سے اچھی نیند آگئی۔ مگر تم بتاو تم کہں تھے ؟؟؟ 
Goongiiii BehnAaaa
 •
      Website Find
Reply


Story Maker Offline
Rook Bee
****
Best Avatar
Joined: 26 Mar 2016
Reputation: 429


Posts: 7,858
Threads: 138

Likes Got: 1,568
Likes Given: 330


db Rs: Rs 170.52
#60
12-06-2016, 01:11 AM
میجر نے بتایا کہ تمہارے کیپنٹ مکیش کے کمرے تک گیا تھا۔ اس سے کچھ کام تھا۔ تانیہ نے حیران ہوکر پوچھا تمہیں اس سے کیا کام پڑگیا اور تم وہاں گئے ہی کیوں؟؟ تو میجر نے اسے کہا چھوڑو تمہارا اس سے کیا تعلق۔ بس جس کام کے لیے میں گیا تھا وہ ہوگیا۔ اب تم تیاری کرو ہمیں ممبئی جانا ہے۔ ممبئی کا نام سنتے ہی تانیہ بولی ممبئی کیوں؟؟ ہمیں تو جونا گڑھ جانا ہے؟؟ امجد وہاں ہمارے انتظار میں ہے۔ تانیہ کی بات سن کر میجر نے تانیہ کو کہا اگر تم کرنل وشال کی قیدی بننا چاہتی ہو تو شوق سے جاو جونا گڑھ۔ وہ پاگل کتے کی طرح تمہیں اور مجھے ڈھونڈ رہا ہے۔ جونا گڑھ اور جامکوٹ کے تمام لوکل چینلز پر ہمارے بارے میں خبریں دی جارہی ہیں۔ وہاں جانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ممبئی بہت بڑا شہر ہے وہاں ہمیں آسانی سے رہنے کی جگہ بھی مل جائے گی اور اسکے ساتھ ساتھ کرنل وشال پر کاری ضرب بھی لگا سکیں گے۔ کرنل وشال کے بارے میں بہت سی معلومات میں حاصل کر چکا ہوں۔ اب تیاری کرو نکلیں یہاں سے۔ 

کچھ ہی دیر میں تانیہ اور اور دانش کیپٹن مکیش کی جیپ میں بیٹھے شہر سے دور جا رہے تھے۔ ایک پلازے کے قریب پہنچ کر میجر دانش نے گاڑی روک لی۔ صبح صبح کا ٹائم تھا پلازے کا مین گیٹ بند پڑا تھا اور باہر ایک چوکیدار بیٹھا تھا۔ میجر دانش نے چوکیدار سے کہا ہمیں مونا جی سے ملنا ہے۔ چوکیدار بولا مونا جی 11 بجے اپنا کام شروع کرتی ہیں ابھی تم لوگ جاو بعد میں آنا۔ میجر دانش نے چوکیدار کو دوبارہ کہا کہ میری بات ہوگئی ہے مونا جی سے تم انہیں خبر دو کہ کیپٹن مرلی وجے آئے ہیں ان سے ملنے۔ کیپٹن کا لفظ سنتے ہی چوکیدار کھڑا ہوا اور پاس کیبن میں موجود فون سے مس مونا کا نمبر ملا یا اور انہیں کیپٹن مرلی کے آنے کی خبر دی۔ مونا جی نے کہا انہیں میرے کمرے تک پہنچا دو۔ چوکیدار نے اب چھوٹا گیٹ کھولا اور دانش کو بولا آپ لوگ گاڑی یہیں کھڑی رہنے دو میں آپکو مونا جی کے کمرے تک لے جاتا ہوں۔ میجر دانش نے گاڑی سے چابی نکالی اور تانیہ کا ہاتھ پکڑ کر چوکیدار کے پیچھے چلنے لگا۔ چیکدار پلازے کی بلڈنگ میں موجودلفٹ کا استعمال کرتے ہوئے چوتھی منزل پر گیا اور ایک کمرے کے سامنے رک گیا چوکیدار نے کمرہ ناک کیا تو اندر سے مونا جی کی آواز آئی کم اِن۔ 

چوکیدار پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوگیا اور میجر دانش کو اندر جانے کا اشارہ کیا۔ میجر دانش تانیہ کو لیے اندر چلا گیا۔ اندر ایک 40 سالہ ادھیڑ عمر خاتون نے میجر دانش اور تانیہ کا استقبال کیا۔ میجر دانش سے ہاتھ ملاتے ہوئے مونا نے اسے کیپٹن مرلی کہ کر مخاطب کیا جبکہ تانیہ سے ملتے ہوئے اسے مسز مرلی کہ کر مخاطب کیا۔ تانیہ ابھی صحیح صورتحال سمجھ نہیں پائی تھی اور دانش سے کچھ پوچھنے ہی لگی تھی کہ دانش کی آواز آئی مونا جی اب جلدی جلدی اپنا کام کریں ہمارے پاس ٹائم بہت کم ہے۔ یہ سن کر مونا تانیہ اور دانش کو لیکر اندر ایک کمرے میں گئی۔ یہ ایک بیوٹی پارلر جیسا کمرہ تھا۔ جہاں ایک 25 سالہ لڑکی اور بھی کھڑی تھی۔ 

مونا جی نے مسز مرلی یعنی تانیہ کو ایک چئیر پر بیٹھنے کو کہا اور پاس کھڑی لڑکی کو بولی میڈیم جی کا ایک دم زبردست میک اپ کر دو اور ہاف ہئیر کٹ کر کے ہئیر سٹائل بھی بناو۔ تب تک میں مسٹر مرلی کا میک اپ کر لوں۔ تانیہ ابھی تک سمجھ نہیں پائی تھی کہ یہ صبح صبح میک اپ کی کیا ضرورت ہے؟؟؟ اور اس ٹائم کونسا بیوٹی پارلر کھلا ہوتا ہے؟؟ اور دانش کو کیسے پتا کہ یہاں جامنگر میں اس پلازے میں ایک بیوٹی پارلر بھی موجود ہے۔ مگر وہ چپ چاپ بیٹھی اپنا میک اپ کروانے لگی۔ لڑکی نے پہلے تانیہ کا ہئیر کٹ کیا۔ تانیہ کے لمبے گھنے بال جو اسکی قریب قریب اسکی کمر کے برابر تھے اب محض کندھوں تک رہ گئے تھے۔ اسکے علاوہ فرنٹ ہئیر کٹ نے تانیہ کو بالکل ہی نئی لُک دے دی تھی۔ کچھ ہی دیر میں تانیہ کا میک اپ بھی ہوگیا تھا، اب وہ کسی بھی اینگل سے کشمیری یا کسی جہادی تنظیم کی لڑکی نہیں لگ رہی تھی۔ بلکہ تانیہ اب دکھنے میں ہائی کلاس فیملی کی جوان لڑکی کے روپ میں تھی۔ اب اسی لڑکی نے تانیہ کو ساتھ والے روم میں لیجا کر اسے وارڈ روب سے کچھ کپڑے دکھائے۔ یہاں سب کپڑے ہائی کلاس فیملیز کے مطابق تھے۔ تانیہ نے ایک سوٹ پسند کر لیا۔ 

سکن ٹائٹ پینٹ کے ساتھ ایک لوز سی شرٹ جو تانیہ کے پیٹ پر آکر ختم ہورہی تھی پہن کر تانیہ اپنے آپ کو شیشے میں دیکھنے لگی۔ لائٹ میک اپ، ہئیر کٹ اور اس ڈریس میں تانیہ واقعی کسی ماڈرن گھرانے کی خاتون لگ رہی تھی۔ اب اس لڑکی نے تانیہ کو اسکے ساتھ ہائی ہیل جوتے بھی لا کر دیے جنکو پہن کر تانیہ اور بھی خوبصورت دکھ رہی تھی اور ساتھ بلیک کلر کے گلاسز اسکی شخصیت کو کافی پر اعتماد بنا رہے تھے۔ تانیہ جو کچھ دیر پہلے ایک سیکسی عربی لڑکی کے روپ میں ڈانس کلب میں ڈانس کر رہی تھی اب ایک مکمل صوبر اور گریس فل لڑکی کے روپ میں کھڑی تھی۔ تیار ہو کر جب وہ باہر نکلی تو دانش کو دیکھ کر حیران رہ گئی ۔ میجر دانش اس وقت دانش کم اور کیپٹن مکیش زیادہ لگ رہا تھا۔ مونا جی نے میجر دانش کا میک اپ کچھ اس طرح سے کیا تھا کہ اب اسکا گورا رنگ کچھ کالا ہوگیا تھا اور اگر کوئی کیپٹن میکش کی تصویر دیکھ کر میجر دانش کو دیکھتا تو اسے لگتا اسکے سامنے کیپٹن مکیش ہی کھڑا ہے۔ 

10 منٹ کے مزید میک اپ ٹچ کے بعد دانش بھی اپنی چئیر سے کھڑا ہوگیا اور جولی نے اسے بھی کچھ مردانہ کپڑے دکھائے جن میں سے میجر دانش نے ایک جوڑے کا انتخاب کیا اور پھر مونا جی کو ایک بڑی رقم دے کر واپس کیپٹن مکیش کی جیپ میں آکر بیٹھ گیا۔ میجر کے ہاتھ میں ایک بیگ بھی تھا جو پہلے نہیں تھا۔ گاڑی میں بیٹھ کر میجر نے گاڑی سٹارٹ کی اور ہائی وے نمبر 6 سے ہوتا ہوا ائیر پورٹ روڈ پر چڑھ گیا۔ اب تانیہ کو سمجھ لگ گئی تھی کہ رات جو ممبئی کے ٹکٹ میجر دانش کو ملے تھے میجر انہی کا استعمال کر کے ممبئی جائے گا اور کیپٹن مکیش کی تصویر دکھا کر اس نے مونا جی سے اپنا میک اپ اسطرح کروایا کہ انکی شکل اب کافی ملتی جلتی لگنے لگی تھی۔ 

تانیہ نے میجر دانش سے پوچھا کہ باقی سب کچھ تو مجھے سمجھ آگیا مگر تم نے مونا جی کو کیپٹن مکیش کی تصویر کیسے دکھائی؟؟؟ میجر دانش نے جیب سے ایک موبائل فون نکالا اور تانیہ کو پکڑا دیا۔ یہ سامسنگ کمپنی کا گلیکسی ایس 5 موبائل تھا۔ تانیہ نے پوچھا یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا؟؟؟ تو میجر نے بتایا کہ تم تو گھوڑے بیچ کر سو گئی تھی مگر میں تھوڑی سی نیند پوری کرنے کے بعد اس کمرے میں گیا جہاں تم نے کیپٹن مکیش کو بے ہوش کیا تھا۔ وہاں جا کر میں نے اسکی مزید تلاشی لی کہ شاید کوئی کام کی چیز مل جائے۔ یہ موبائل ملا، اس سے میں نے کرنل وشال کے بارے میں بھی بہت سی معلومات حاصل کر لی ہیں اور ساتھ ساتھ کیپٹن مکیش کے بارے میں بھی۔ اسی موبائل سے کیپٹن مکیش کی تصویریں بنائیں اور پھر موبائل سے ہی سرچ کیا جامنگر میں میک اپ آرٹسٹ کے بارے میں تو مجھے مونا جی کے فیس بک پیج کے بارے میں پتا لگا وہاں سے انکا موبائل نمبر لے کر انہیں کال کی اور اپنے آپ کو کیپٹن ظاہر کر کے انہیں مجبور کیا کہ وہ صبح 7 بجے ہمیں ملنے کا موقع دیں۔ اور میرا میک اپ اس طرح کر دیں کہ میری شکل دہشت گرد مکیش سے ملے۔ یہ کہ کر دانش نے ایک زور دار قہقہ لگایا اور گاڑی چلانا جاری رکھی۔ پھر میجر دانش نے بتایا کہ کیپٹن مکیش کی 9 بجے کی فلائیٹ ہے ممبئی کی۔ ہم اسی فلائیٹ سے کیپٹن مکیش اور مسز مکیش بن کر ممبئی جائیں گے۔ وہاں آرمی ریذیڈینشل کالونی میں کرنل وشال کا گھر ہے جہاں اسکی ایک بیٹی ٹینا رہتی ہے اور اسکے علاوہ کچھ ملازم ہیں گھر میں۔ کرنل خود جامنگر اور جونا گڑھ مجھے تلاش کر رہا ہے جب تک اسے میری خبر ہوگی میں اسکے مشن کے بارے میں کچھ نہ کچھ پتا لگا لوں گا کہ آخر وہ پاکستان سے کونسی خفیہ معلومات لیکر انڈیا آیا ہے۔ 

اور کوشش کروں گا کہ یہ بھی پتا لگا سکوں پاکستان میں کونسا نیٹ ورک کرنل وشال کی مدد کرتا ہے۔ تانیہ نے پوچھا کہ ہم رہیں گے کہاں ممبئی میں؟ تو دانش نے کہا اسکا بھی بندوبست میں کر چکا ہوں۔ وہاں کے ایک جرائم پیشہ گروہ سے میری بات ہوئی ہے انکو بھاری رقم دے کر ایک ٹھکانہ حاصل کرلوں گا میں۔ اور اگر کرنل وشال ممبئی آ بھی جائے تو وہ مجھے ڈھونڈنے کے لیے جرائم پیشہ افراد کے ٹھکانوں کی طرف نہیں آئے گا بلکہ آزادی پسند تنظیموں کے ٹھکانوں پر مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا، اس طرح میں سکون سے اپنا کام کرسکتا ہوں۔
Goongiiii BehnAaaa
 •
      Website Find
Reply


« Next Oldest | Next Newest »
Pages ( 47 ): « Previous 1 ..... 3 4 5 6 7 8 9 ..... 47 Next »
Jump to page 


  • View a Printable Version
  • Subscribe to this thread


Best Indian Adult Forum XXX Desi Nude Pics Desi Hot Glamour Pics

  • Contact Us
  • en.roksbi.ru
  • Return to Top
  • Mobile Version
  • RSS Syndication
Current time: 30-07-2018, 01:18 AM Powered By © 2012-2018
Linear Mode
Threaded Mode


aunty porn xxx  aunty ki boor  sexy chat in telugu  nude pornster  xxx sex tales  chut fadi  southindia sexy.com  desi aunty wet  desi hindi sexy kahani  bang my indian wifes  chavat goshti marathi  sex kahaniya oxford  chut ki khujali  gm diet chart vegetarian  telugu sex kathalu aunty  latest indian mms clips  sala kutta  daise mms  comic sec  tamil incest sex kathaikal  desi lesbian pics  asin tamil sex stories  sexhot chachilun kiss  boor choda chodi  desi story pdf  navel tickle stories  meri suhaag raat  परिवार में सेक्स एक्सबी  www.malyalm sex.com  poorna hot sex  indian sez stories  rupali ka ghar  real desi mms  pyasi bur  fucking story in marathi  antrvasna hindi sexy story  malayalam sex story reading  hibdi sexy stories  sexy gujarati stories  punjabi sexy sites  tamil chithi sex stories  Soek lekker warm seks stories oor lesbies  sexi gurls  babita iyer  desi mummay  desi hindi sexy kahaniya  telugu actress sex story  telugu sex kathalu latest  online sex stories hindi  blackmail sex fantasy  xxx tamils  padosan ki mari  stories of adult breastfeeding  exbii அம்மா ஒல் கதை  urdusex storys  adult story in hindi font  shakeela nude photos  mallu vedikal  girls strip series with face images (sexy girl 200  tlegu sex  meri maa chud gai  sex bhabhi hindi  arpitha aunty video  indian aunties club  sex books in urdu  bhai bahan sexy story  telugu sex stories script  desi dudu  hot stories in malayalam  sexy stores hindi  girls watching guys jerking off  kannadasex kathegalu  forced adult breastfeeding  sex katha malayalam  andhra aunty pics  tamilsex amma  shakila hot boobs  desi lund photo