اب کرنل وشال زرین خان کے پہلو میں لیٹا داود کے بارے میں سوچ رہا تھا ، زرین خان کو چودتے ہوئے بھی کرنل کا دھیان داود کی طرف ہی تھا۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ داود اسکو دھوکہ دے گا۔ کرنل ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کے اسکے خفیہ موبائل پر بیل بجی۔ کرنل نے فوری موبائل اٹھایا اور آنے والی کال کو اٹینڈ کرتے ہوئے غراتے ہوئے بولا کرنل وشال شپیکنگ۔ واٹ از دی اپڈیٹ؟؟ آگے سے کہا گیا سر ایک بری خبر ہے۔۔۔ کرنل وشال نے بے پرواہی سے کہا بولو۔ آگے سے بولنے والے شخص نے بتایا کہ میجر دانش بھاٹیا سوسائٹی جامنگر کے قید خانے سے فرار ہو چکا ہے۔ قید خانے میں اسکی نگرانی پر مامور ایجینٹ رائے اور واسو کی لاش راہداری اور کنٹرول روم میں ملی ہے جبکہ کیپٹن سونیہا بھی مردہ حالت میں پائی گئی ہے۔
کرنل وشال اپنے دانت پیستا ہوا بولا اور کوئی بات؟؟؟ آگے سے بتایا گیا کہ میجر دانش نے داود اسمعیل کے گینگ کے جس آدمی سے فون پر بات کی تھی اسے اپنا تعارف ایجنٹ 35 کہ کر کروایا تھا۔ جبکہ داود گروپ کا ایجنٹ 35 اس وقت آئی ایس آئی کی قید میں ہے۔ یہ سن کر کرنل وشال نے اپنا فون دیوار پر دے مارا اور زور سے دھاڑا میجر دانش، یو فکڈ وِد می۔ آئی وِل کِل یو باسٹرڈ ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
کرنل وشال کا جسم غصے سے کانپ رہا تھا وہ میجر دانش کی چالاکی پر بہت حیران تھا۔ جس نے نہ صرف اس قید خانے کی سیکیورٹی کو ناکام بنا دیا تھا جسکو آج تک کوئی قیدی نہیں توڑ سکا تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس نے اپنی ایک عام سے فون کال کے ذریعے کرنل وشال کے رائٹ ہینڈ گینگ داود اسمعیل کے گینگ کا بھی صفایا کروا دیا تھا۔ اور وہ صفایا خود کرنل وشال نے کیا تھا۔ وہ اپنی اس حماقت پر اپنے آپ کو کوس رہا تھا۔
اصل میں میجر دانش نے سونیہا جو کہ اصل میں انڈین آرمی میں کیپٹن کے عہدے پر تھی کی باتوں پر کبھی یقین کیا ہی نہیں تھا۔ اسے پورا یقین تھا کہ یہ سب اس سے پاکستان کے خفیہ راز اگلوانے کے لیے اپنے جسم کا استعمال کر رہی ہے۔ جب سونیہا نے میجر دانش کو کہا کہ تم اپنے ساتھیوں کو فون کرو تاکہ وہ ہماری مدد کر سکیں، تبھی میجر دانش کو یقین ہوگیا تھا کہ یہ میرے ساتھ ساتھ مزید لوگوں کو بھی پکڑوانا چاہتی ہے تاکہ میجر دانش کو چارے کے طور پر استعمال کر کے وہ اپنی واہ واہ کروا سکے۔ میجر دانش نے فورا حامی بھر لی تھی مگر سونیہا کے جانے کے بعد وہ سوچتا رہا کہ آخر انکو کیسے چکما دیا جائے؟؟ تبھی میجر دانش کے ذہن میں وہ دہشت گرد آیا جو کراچی بم بلاسٹ میں ملوث تھا اور لیاری سے 2 ماہ پہلے میجر دانش نے ہی اسے گرفتار کیا تھا۔ اور تفتیش کے دوران اس نے بتایا تھا کہ وہ داود اسمعیل کے گینگ کے لیے کام کرتا ہے اور اسکا کوڈ ورڈ ایجینٹ 35 ہے۔
یہیں سے میجر دانش نے سوچا کہ چلو اپنی جان بچے یا نہ بچے مگر اس گینگ کا تو صفایا ہونا چاہیے تاکہ یہ لوگ مزید معصوم لوگوں کی جان نہ لے سکیں۔ اسی سوچ کے ساتھ میجر دانش نے ایک نمبر پر فون کیا، یہ نمبر بھی اسے ایجینٹ 35 سے ہی ملا تھا۔ میجر جانتا تھا کہ جیسے ہی ان لوگوں کو شک ہوگیا کہ یہ گینگ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے لیے بھی کام کرتا ہے تو کرنل وشال خود ہی اس گینگ کا خاتمہ کروا دے گا۔۔ ۔ مگر میجر دانش یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ گروہ کرنل وشال کے لیے کتنا اہم تھا۔ یوں میجر دانش کی اس چال سے پاکستان کا تو فائدہ ہوا ہی تھا مگر ساتھ میں کرنل وشال پر بھی کاری ضرب لگی تھی۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا ایک طاقتور بازو کاٹ چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب وہ پاگل کتے کی طرح میجر دانش کو ڈھونڈ رہا تھا۔
================================================== =====
میجر دانش کے کپڑوں میں کچھ ہتھیار موجود تھے جن سے وہ ان لوگوں کا مقابلہ کر سکتا تھا، مگر مسئلہ یہ تھا کہ تینوں مسلح لوگ مکمل طور پر چوکس کھڑے تھے اور وہ میجر دانش کی طرف سے کسی بھی چالاکی پر گولی چلانے سے دریغ نہ کرتے۔ ان مین سے ایک آدمی جو صحت میں ان سب سے تگڑا تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سب سے زیادہ موٹا تھا تو غلط نہ ہوگا اور ہلکی داڑھی اور سر پر رکھی پگڑی سے سکھ لگ رہا تھا، وہ غراتے ہوئے بولا کون ہو تم اور کیا نام ہے تمہارا؟؟؟ اب میجر دانش یہاں پر ٹریفک کانسٹیبل افتخار والی کہانی نہیں سنا سکتا تھا کیونکہ وہ قید خانے سے بھاگا تھا اور اب کسی کو یہ بتانا کہ وہ پاکستانی ہے اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ میجر دانش نے فورا ہی اپنے ذہن میں ایک کہانی بنا لی تھی۔ اس نے فورا بتایا کہ اسکا نام سنجیو کُمار ہے۔ 2 مہینے پہلے اسے ایک انڈر ورلڈ گینگ نے 2 کروڑ کی رقم کے لیے اغوا کیا تھا مگر اس رقم کا بندوبست نہیں ہوسکا تو انہوں نے سنجیو کمار یعنی میجر دانش کو قیدی بنا لیا تھا اور آج وہ کسی طرح قید سے آزاد ہوکر بھاگا ہے۔
ابھی میجر دانش کی بات مکمل ہی ہوئی تھی کہ روڈ سے آنے والی گاڑی بھی اسی جگہ پر رک گئی اور کچھ دیر بعد روڈ سے نیچے اتری اور جھاڑوں کی طرف آنے لگی۔ اب گاڑی کی لائٹس میجر دانش کے اوپر پڑ رہی تھی۔ میجر دانش نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اسکی ہلکی سی جنبش پر گن میں گولی چلانے سے گریز نہیں کریں گے۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ ایک قید خانے سے بھاگا تو اب معلوم نہیں یہ کون لوگ ہیں جو اسکے راستے میں آگئے۔ اتنے میں میجر دانش کو گاڑی کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ مسلح لوگوں میں موٹی توند والا گاڑی کی طرف متوجہ ہوا اور بولا ہاں کیا خبر ہے وہاں کی؟؟ میجر دانش کو اپنے پیچھے قدموں کی آواز آئی جو اسی کی طرف آرہے تھے۔پھر کوئی میجر دانش سے کچھ فاصلے سے گزرتا ہوا انہی 3 مسلح لوگوں کے پاس آیا۔
میجر دانش نے چہرہ اوپر ہلکا سا گھما کر آنے والے کی طرف دیکھا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آنے والا اصل میں "والا" نہیں بلکہ "والی" ہے۔ یہ ایک جوان لڑکی تھی جس نے سرخ رنگ کی ساڑھی زیب تن کر رکھی تھی۔ آنکھوں پر ہلکے براون رنگ کا چشمہ تھا اونچی ہیل والے سینڈل اور بازو میں ایک چھوٹے سائز کا لیڈیز بیگ پکڑ رکھا تھاچھوٹے بال کندھوں سے کچھ نیچے کمر کو چھونے کی کوشش کر رہے تھے۔ انڈین کلچر کے مطابق ساڑھی کا بلاوز تھوڑا چھوٹا تھا جس میں اسکے پیٹ کا کچھ حصہ واضح نظر آرہا تھا۔
آنے والی لڑکی نے ، جسکی عمر لگ بھگ 20 سال ہوگی اور قد 5 فٹ 6 انچ کے قریب رہا ہوگا ہلکا سا چشمہ ٹیڑھا کر کے میجر دانش کی طرف دیکھا اور مسلح شخص کی بات کا جواب دینے کی بجائے میجر دانش سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی تم کہاں سے آئے ہو؟؟؟ اس سے پہلے کہ میجر دانش کچھ بولتا مسلح آدمی نے دوبارہ اس سے پوچھا اس کو چھوڑو جس کام سے تمہیں بھیجا تھا اسکا بتاو کیا بنا؟؟ تو لڑکی بولی ایک حیران کن خبر ہے۔ وہ وہاں سے فرار ہوچکا ہے، گیٹ آدھا کھلا تھا اور گیٹ پر گن مین بے ہوش پڑا تھا، جبکہ اندر کافی دور کچھ مسلح افراد نظر آئے جو شاید کسی کو ڈھونڈ رہے تھے۔ ہو نہ ہو وہ وہاں سے بھاگ چکا ہے۔۔۔۔ اب مسلح شخص نے دوبارہ سے میجر دانش کی طرف دیکھا اور بولا ہاں تو سنجیو کمار صاحب، آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں اور اس گینگ کی قید سے کیسے بھاگے؟؟؟ اس پر اس لڑکی نے دوبارہ میجر کی طرف دیکھا اور مسلح شخص کو مخاطب کر کے بولی یہ کس طرف سے آیا ہے؟؟؟ مسلح شخص نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ یہ اسی سائیڈ سے آیا ہے جہاں سے تم آرہی ہو۔۔۔ یہ سن کر اس لڑکی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور وہ بولی کہیں تم ہی تو میجر دانش نہیں ہو؟؟؟ لڑکی کے منہ سے اپنا نام سن کر میجر دانش حیران رہ گیا اور پھر بولا نہیں میں کسی میجر دانش کو نہیں جانتا۔ میرا نام سنجیو کُمار ہے اور میں ممبئی شہر کا رہنے والا ہوں۔ میرا وہاں کپڑے کا کاروبار ہے۔
میجر دانش نے اب غور کیا تو صرف لڑکی ہی نہیں بلکہ تینوں مسلح افراد بھی مسکرا رہے تھے اور حیرت انگیز طور پر اب انہوں نے اپنی گن کا رخ بھی زمین کی طرف کر دیا تھا اور وہ بہت ریلیکس کھڑے تھے۔ میجر دانش نے سوچا موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے ، اس نے ایک ہی لمحے میں اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اسمیں سے ایک چھوٹے سائز کا پسٹل نکالا اور ایک ہی چھلانگ لگا کر لڑکی کے سر پر پہنچ گیا اس نے اپنی پسٹل لڑکی کی گردن پر رکھ دی تھی اور اسکے گورے پیٹ کے گرد ہاٹھ ڈال کر اسکو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔ میجر دانش چلایا کہ تم سب اپنی اپنی گن نیچے پھینک دو نہیں تو تمہاری یہ ساتھی اپنی جان سے جائے گی۔ یہ کہ کر میجر دانش نے کاونٹنگ شروع کر دی، 1 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر یہ کیا۔۔۔۔ وہ تینوں مسلح لوگ ڈرنے کی بجائے ابھی بھی میجر دانش کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے اور لڑکی کی بھی ہنسی نکل رہی تھی۔
میجر دانش ایک بار پھر چلایا مگر اس بار مسلح شخص نے میجر دانش کو مخاطب کیا اور بولا میجر صاحب کپڑے کا کاروبار کرنے والا اس پھرتی سے کبھی حملہ نہیں کر سکتا۔ یہ کہ کر اسنے اپنی گن نیچے رکھی اور میجر کی طرف ہاتھ پھیلا کر بڑھنے لگا، میجر دانش اس صورتحال پر حیران تھا، اس نے ایک بار پھر اپنی پسٹل لڑکی کی گردن پر رکھی اور دھمکی آمیز لہجے میں بولا ایک قدم بھی آگے بڑھا تو میں گولی چلا دوں گا۔ مگر لڑکی ابھی بھی مسکرا رہی تھی۔ اب وہ مسلح شخص سیدھا کھڑا ہوا اور میجر دانش کو سلیوٹ کیا اور بولا سر تانیہ کو تو چھوڑ دیں یہ آپکو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی، اور جہاں سے آپ بھاگے ہیں یہ ابھی وہیں سے ہوکر آرہی ہے اور ہمیں حیرت ہے کہ آپ کرنل وشال کے اس قید خانے سے کیسے زندہ سلامت بچ کر نکل آئے۔۔۔آج تک اسکے قید خانے سے کوئی بچ کر نہیں نکل سکا۔ میجر دانش نے اس بار حیران ہوکر پوچھا تم کون ہو؟؟