میجر دانش نے دروازہ بند کیا اور دوبارہ سے بلڈنگ کا نقشہ دیکھنے لگا جو اسی کنٹرول روم میں موجود تھا۔ یہ بلڈنگ چاروں طرف سے اسی طرح کے ویران میدان سے گھری ہوئی تھی جب کہ چاروں طرف ایک بڑی دیوار تھی اور باہر جانے کا صرف ایک ہی راستہ تھا جو میجر دانش سے کوئی 500 میٹر دور تھا اور لازمی طور پر وہاں پر بھی سیکیورٹی گارڈ موجود تھے۔ اب میجر دانش اس قید سے نکلنے کا پلان کرنے لگا۔ اچانک ہی اسکے زہن میں ایک زبردست پلان آیا۔ دونوں غنڈوں میں سے ایک غنڈے نے ہلکی داڑھی رکھی ہوئی تھی اور ڈیٹا بیس میں اسکی تصویر بھی داڑھی کے ساتھ ہی تھی۔ میجر دانش بھاگتا ہوا راہداری میں سے واپس اپنے قید والے کمرے میں گیا وہاں بہت سارا سامان موجود تھا جو قیدیوں کو اذیت پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ میجر دانش نے اس سامان سے ایک بلیڈ نکالا اور واپس کنٹرول روم میں آگیا، آٹومیٹک سیکورٹی میجر دانش پہلے ہی جام کر چکا تھا اس لیے اسے اس بار راہداری سے گزرنے میں کوئی پرابلم نہیں ہوئی۔
واپس آکر میجر دانش نے اس غنڈے کے چہرے کے بال صاف کیے اور اسکے چہرے پر 2 مختلف جگہ پر بلیڈ سے نشان بھی لگا دیا۔ بلیڈ لگنے سے خون نکلنے لگا جو میجر دانش نے اسکے چہرے پر مل دیا۔ اب کسی بھی کیمرے کے لیے اس شکل کو پہچاننا ممکن نہ تھا۔ اب میجر دانش نے کنٹرول روم کا جائزہ لیا اور وہاں سے کچھ ہتھیار اٹھا کر اپنے کپڑوں میں چھپا لیے اور اسکے بعد آٹومیٹک سسٹم کا ٹائمر آن کر دیا۔ 5 منٹ کے بعد سیکیورٹی سسٹم آٹومیٹک طریقے سے آن ہوجانا تھا۔ میجر دانش نے سونیہا اور پہلے غنڈے کی لاش کمرے کے اندر کر دی اور دوسرا غنڈے کی لاش کو راہداری میں رکھ دیا اسکے بعد میجر دانش نے راہداری کا باہر جانے والا دروازہ کھولا اور اطراف کا جائزہ لیکر جھاڑیوں کی طرف دوڑ لگا دی۔ میجر دانش اپنی پوری طاقت لگا کر پوری تیزی کے ساتھ جھاڑیوں کا سہارا لیتا ہوا مین گیٹ کی طرف بھاگ رہا تھا۔ جب یہ فاصلہ 100 رہ گیا تو میجر دانش رک گیا اور واپس راہداری والے راستے کی طرف دیکھنے لگا۔
اندر راہداری میں غنڈے کی لاش پڑی تھی جو اب ڈیٹابیس میں موجود تصویر سے کافی مختلف تھی۔ 5 منٹ پورے ہونے پر سیکیورٹی سسٹم آن ہوگیا اور جیسے ہی راہداری کے کیمرے آن ہوئے تو آٹومیٹک سیکورٹی سسٹم اس لاش کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر کیمرے سے ملنے والی تصویر ڈیٹا بیس میں موجود کسی بھی تصویر سے میچ نہ ہوئی تو آٹومیٹک لیزر آن ہوگئی اور ساتھ ہی پوری بلڈنگ زور دار سائرن سے گونجنے لگی۔ لیزر نے اس لاش کے ٹکڑے کر دیے تھے جبکہ سائرن کی آواز سن کر تمام سیکورٹی اہلکار اپنی اپنی جگہ کو چھوڑ کر اس بلڈنگ کی راہداری سے نکلنے والے دروازے کے سامنے اپنی اپنی پوزیشن لینے لگے تھے۔ کوئِ بلڈنگ کی چھت سے نیچے اترا تو کوئی بلڈنگ کی باہر والی سائیڈ پر موجود کمروں سے نکلا۔ اسی طرح مین گیٹ پر موجود 2 سیکیورٹی اہلکاروں میں سے ایک نے بھی بھاگنا شروع کیا اور راہداری کے دروازے کے باہر اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ اب میجر دانش نے مین گیٹ کی طرف بھاگنا شروع کیا۔
مین گیٹ پر موجود واحد سیکورٹی اہلکار کو جھاڑیوں میں ہلچل محسوس ہوئی تو وہ دیکھنے کے لیے آگے بڑھا۔ اچانک ہی جھاڑیوں سے میجر دانش نے لمبی چھلانگ لگائی اور اس سے پہلے کہ سیکورٹی اہلکار کچھ سمجھتا میجر دانش کے ہاتھ میں موجود تیز دھار خنجر اسکی گردن پر تھا ۔ اب یہ اہلکار کچھ بول نہیں سکتا تھا۔ میجر دانش نے اسکو تیز الفاظ میں کہا زندگی پیاری ہے تو فورا یہ گیٹ کھول دو نہیں تو 3 گننے تک تم اپنی جان سے جاو گے اور میرے ہاتھ میں تیز خنجر تمہاری گردن کاٹ ڈالے گا۔ اسکے ساتھ ہی میجر دانش نے گنتی شروع کر دی۔ 1 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کہ میجر دانش 3 کہتا اس سیکورٹی اہلکار نے میجر دانش کو گیٹ کھولنے میں مدد کرنے کا یقین دلایا، میجر دانش اب اسے گھسیٹتا ہوا گیٹ کے قریب لے گیا تو اس نے اپنی جیب سے ایک چابی نکالی اور گیٹ میں لگا دی۔ اسکے بعد اس نے گیٹ میں لگے سسٹم پر کوئی کوڈ اینٹر کیا اور پھر چابی گھمائی تو گیٹ کھلنے لگا۔
گیٹ کھلتے ہی میجر دانش کا ہاتھ چلا اور سیکورٹی گارڈ لہراتا ہوا زمین پر آرہا۔ میجر دانش نے اسے جان سے نہیں مارا تھا بالکہ اسکی گردن پر اپنا مخصوص وار کیا تھا جس سے وہ فوری بے ہوش ہوگیا اور زمین پر گر گیا جبکہ میجر دانش گیٹ سے نکلتے ہی دائیں طرف بھاگنے لگا۔ اندر موجود باقی سیکورٹی اہلکار ابھی تک راہداری کا دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھا۔ نہ تو اندر کوئی موجود تھا نہ ہی دروازہ کھلا۔ اور سیکورٹی اہلکار انتظار ہی کرتے رہ گئے۔
میجر دانش بھاگتے بھاگتے بہت دور نکل آیا تھا مگر ابھی تک کسی شہر یا آبادی کے کوئی آثار نظر نہیں آئے تھے۔ بھاگ بھاگ کر میجر کی حالت خراب ہوچکی تھی۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اسے اتنا بھاگنا پڑے گا۔ دور دور تک پانی کا بھی نام و نشان موجود نہیں تھا۔ بس ایک ٹوٹی پھوٹی روڈ تھی اور میجر دانش اسکے ساتھ ساتھ بھاگ رہا تھا۔ کافی دیر بھاگنے کے بعد جب میجر دانش تھک چکا تو اس نے چلنا شروع کر دیا تھا ۔ شام کا اندھیرا ہو چکا تھا اور میجر دانش کو اس بلڈنگ سے نکلے کوئی 30 منٹ ہوچکے تھے۔ اچانک میجر دانش کو دور کہیں سے گاڑی کی آواز آئی۔ میجر دانش نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو روڈ پر ایک گاڑی آرہی تھی جسکی ہیڈ لائٹس آن تھیں۔ گاڑی کو دیکھتے ہی میجر روڈ سے اتر گیا اور کچھ ہی دور موجود جھاڑیوں میں چھپ گیا اور گاڑی کے گزرنے کا انتظار کرنے لگا۔ اس سے پہلے کہ گاڑی وہاں سے گزرتی میجر کو محسوس ہوا کہ اسکے پیچھے کوئی کھڑا ہے۔۔۔ میجر نےپیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں 3 ہٹے کٹے مرد کھڑے تھے جنکے ہاتھ میں رائفل تھیں اور انکا رخ میجر دانش کی طرف تھا۔۔۔۔۔
================================================== =========