دوستو! اس کہانی کو شائع کرنے کا مقصد صرف اتنا ھے کہ ھم اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں نا صرف بچوں بلکہ بڑوں کو بھی دیکھیں تاکہ اگر کہیں کچھ غلط ھو رہا ھے تو اسے روکیں ۔بالخصوص ان والدین یا سرپرستوں کیلئے ھے یہ تحریر جو اپنے بچوں کیلئے گھر پر ٹیوٹر بلاتے ھیں پھر انہیں مکمل آزادی دے دیتے ھیں۔
میری ایک کولیگ تھی جو میری ھمراز بھی تھی وہ بہت ھی سادہ دل خوش مزاج لڑکی تھی ھم ایک ھی سکول میں پڑھاتی تھیں ۔اور اسکا گھر بھی میرے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تھا ۔اسے خوبصورت تو نہیں مگر خوش شکل کہا جاسکتا ھے ۔ وہ مجھ سے عمر میں 2 سال بڑی تھی ۔ بھائی دبئی میں جاب کرتے تھے اور انکے ابو کی شاپ تھی کریانہ کی ۔دوسرے محلے میں ۔سفید پوش گھرانے سے تعلق تھا ۔ اسکا نام تھا رباب ۔مگر سب اسے روبی کہتے تھے ۔رباب خوش اخلاق بھی تھی اور خوش شکل بھی مگر احساس کمتری کا شکار رہتی تھی اکثر ۔وہ خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں خود قید رکھتی تھی ۔وہ اکثر خواتین ڈائجسٹ کی کہانیا ں پڑھنے کے بعد خود کو بھی ان جیسا سمجھنے لگتی اور کسی امیر شہزادے کی راہ تکتی رہتی کہ کبھی کوئی اسے پسند کرے اور کسی وسیع و عریض بنگلے میں بہت شان سے لے جا ئے ۔اسکے بھی ملازمین ھوں وہ بھی مہنگی گاڑیوں میں سفر کرے ۔مگر جب وہ آئینے میں خود کو دیکھتی تو ٹھنڈٰ سانس بھر کر رہ جاتی۔کیونکہ اس کے پاس کچھ بھی ایسا نہ تھا جو اسے کسی کی نظروں کا محور بناتا ۔سانولی رنگت 4 فٹ قد اور نسوانی حسن کھلنے سے پہلے ڈھلک چکا تھا ۔اسکے سینے کے ابھار 36 کے تھے مگر دھلکے ھوئے بے جان ۔ جیسے انہیں کسی نے نچوڑ لیا ھو ۔اسی لیئے وہ اکثر فوم والی برا پہنتی تھی جس سے اسکا سینے باھر کو نکلا ھوا دکھتا اور لوگ دیکھنے پر مجبور ھو جاتے ۔یہ بھی ایک سچی حقیقت ھے یہاں کا معاشرہ ایسا ھے اگر آپ بہت زیادہ گوری چٹی اور گلابی ھوں آنکھیں بھی جھیل سی ھوں چال بھی ھرنی جیسی ھو ۔مگر اگر آپکے پاس نسوانی حسن کا شاہکار بم یعنی آپکے سینے کے ابھار نہ ھوں تو دیکھنے والا مڑ کر دیکھنے کی زحمت نہیں کرتا کیونکہ جیسے گاڑی کے ھر ماڈل میں ھیڈ لائٹ کا شیپ بدل کرانہیں خوبصورت کیا جاتا ھے بالکل ویسے ھی مرد کی نفسیات ھے کہ وہ ھر دوسری لڑکی میں کوئی نئی چیز ڈھنڈتا جس کی بنا پر اسے پسند اور نا پسند کرتا ھے
۔روبی اخلاق کی بہت اچھی تھی ۔اس نے مجھے بتایا تھا اسے مولوی صاحب پڑھانے آتے ھیں اس نے پہلے سے پڑھا تو ھوا تھا مگر دوہرا رہی تھی ٹھیک تلفظ کیساتھ۔ کچھ دن بعد میں نے محسوس کیا ۔روبی کی ادائیں بدل رہی ھیں ۔
اسکی طبیعت میں شوخی آ رھی ھے ۔اور پہلے جیسے وہ سوچوں میں گم رہتی تھی اب اکثر کھلکھلا کر ھنس پڑتی ۔ میں نے کئی بار پوچھنے کی کوشش کی مگر وہ ٹال گئ۔ آخر ایک دن میں نے اسے کہا "روبی یہ بتا تو یہ روز بروز نکھرتی جارہی ھے آخر اسکی کیا وجہ ھے ۔۔ کہیں تجھے تیرا خوابوں کا شہزادہ تو نہیں مل گیا ۔"؟
میری بات سن کر وہ ھنس پڑی اور بولی " مونا ڈیئر بس امید ھے عنقریب مل جائے گا ۔"
میں یہ سنتے ھی اچھل پڑی اور پوچھا " کہاں سے پیدا ھو گئی یہ امید "؟
وہ بولی "رھنے دے تجھے کیا دلچسپی ھے ھم غریبوں کیساتھ "؟
میں نے اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا " روبی یار تو مجھے غیر سمجھتی ھے ؟ "
وہ بولی " نہیں مگر پھر بھی ۔۔میرے نہ سمجھنے سے کیا ھو تا ھے "
میں بولی پاگل ھے تو ۔۔ میںٹل لڑکی ۔۔۔تو میری فرینڈ ھے یار بتا تیرے علاوہ کوئی اور ھے جو میرے اتنا قریب ھو "؟
وہ بولی "بات تو تیری ٹھیک ھے مونا ! مگر یار تو رہنے دے اس بات کو " میری بات سن کے پتہ نہیں تو کیا سمجھے اسی لیئے چھوڑ "
میں اڑ گئی " دیکھ روبی بتا دے ورنہ ۔میں رو دوں گی " اور سب آکر پوچھیں گے تو تیرا نام لوں گی "
وہ بولی " چل بلیک میلنگ چھوڑ " بتاتی ھوں "
پھر وہ بتانے لگی
یار وہ جو مجھے پڑھانے آتے ھیں ناں ۔۔میں بولی ھاں مولوی صاحب۔۔
وہ بولی ھاں ۔۔یار وھی مجھے اچھے لگتے ھیں ۔
میں بھڑک اٹھی " اور بولی "روبی دماغ تو خراب نہیں ھو گیا تیرا ؟
وہ بولی " بس یہی سمجھ لے یار ۔
اور صابر یعنی مولوی صاحب بھی مجھے پسند کرتے ھیں ۔۔
روبی کی یہ بات سن کر مجھے مزید حیرت ھوئی ۔اور میں چلا اٹھی ۔۔ نہیں ۔۔۔روبی یہ کیا بکواس ھے ۔ وہ مولوی ھے یار کچھ شرم کر میں نہیں مانتی ۔
یہ کہتےھوئے میری آواز کچھ بلند ھو گئی تھی میں حیران تھی ۔اور یہ بھول گئی تھی کہ ھم سٹاف روم کے باھر ھی بیٹھی تھیں تو۔ روبی نے میرے منہ پہ ھاتھ رکھا اور بولی ۔۔مونا آھستہ بولو کیا تماشہ بناؤ گی اب "
۔
وہ بولی " یار اس میں شرم کی کیا بات ھے وہ مجھ سے شادی کرنا چاھتے ھیں ۔اور اچھا خاصا کما لیتے ھیں۔اپنا گھر ھے گاڑی اس لیئے نہیں خریدتے تاکہ لوگ امیر سمجھ کر خدمت کرنا نہ چھوڑ دیں۔
میں بولی اچھا تو : اب تم اسی لیئے ھواؤں میں اڑتی پھر رہی رہی ھو "
وہ بولی"ھاں تو کیوں ناں پھروں میں خوش ھوں "
میری بھی کچھ باتیں اسے معلوم تھیں منگیتر کیساتھ جو کچھ ھوتا تھا اس سے شئر کرتی تھی ۔
پھر ھم لوگوں کا بریک ختم ھوا ۔اور ھم لوگ کلاس روم میں چلے گئے ۔چھٹی کے بعد میں نے روبی سے کہا میں شام کو آؤنگی تیرے گھر تو وہ بولی ۔آجانا تجھے ملواؤں گی اپنے دلہا سے ۔ میں حیران رہ گئی کہ اتنی جلدی یہ سب کیسے ھو گیا ۔
روبی اتنا آگے کیسے بڑھ گئی وہ مجھ سے عمر میں بڑی تھی ۔پھر میں یہ سوچ کر چپ رہ گئی کہ اس نے صابر میں کچھ تو دیکھا ھوگا ۔آخر ۔
خیر شام کو میں اسکے گھر گئی تو اسکی امی چائے بنا رہی تھیں ۔میں نے روبی کا پوچھا تو بولیں وہ پڑھ رہی ھے بیٹا مولوی صاحب آئے ھیں ۔
میں نے آںٹی سے کہا اچھا آپ اسے مت بتائیے میں کچھ دیر انتظار کر لیتی ھوں ۔جب وہ پڑھ لے گی تو مل لوں گی ۔
یہ کہی کر میں آنٹی والے روم میں چلی گئی ۔انکے گھر میں بس 2 ھی کمرے تھے اور دونوں کے درمیان دروازہ تھا جو اب بھی کھلا ھوا تھا ۔اور اس پر پردہ تھا ۔
برابر والا کمرہ روبی کا تھا اور وہ اسی میں پڑھ رہی تھی میں کمرے کچھ دیر بیٹھی مگر مجھے روبی کے پڑھنے کی آواز نہیں آئی تو میں نے سوچا دیکھوں تو یہ کیا پڑھ رہی ھے ۔میں اٹھی اور درمیان والے دروازے کے قریب آگئی اور پردے کو نامعلوم طریقے سے تھوڑاسا ھلایا تو اندر کا منظر دیکھتے ھی میرے بدن پہ چیوںٹیاں رینگنے لگیں ۔بالکل سامنے ایک کرسی تھی جس پر ایک کالے رنگ کا سوکھا سڑی ھوئی رنگت والا کوئی 24 سال کا لڑکا بیٹھا تھا اور اسکے بائیں طرف روبی کی کرسی تھی مگر اب وہ اس پر نہیں تھی ۔ مولوی روبی کو اپنی گود می بٹھا کر اسکے ھونٹ چوس رہا تھا اور اسکی نظریں باھر والے دروازے کی طرف تھیں شاید اس لیئے کہ جیسے ھی آنٹی آتی ھوئی دکائی دیں تو وہ سنبھل جائیں ۔ روبی کی میری طرف پیٹھ تھی ۔
مجھے معلوم تھا کہ روبی کو فنگرنگ کی عادت ھے جس کی وجہ سے اسے لیکوریا بھی تھا اور اسکے بوبز بھی ڈھیلے ھو کر لٹک گئے تھے ۔ وہ اپنی تسکین کیا کرتی ھے مگر روبی نے کبھی کسی سے سیکس نہیں کیا تھا وہ پیاسی تھی ۔اور آج اسے اس حالت میں دیکھ کر مجھے اس کی شوخی کی وجہ سمجھ آگئی ۔میں نے کچھ دیر انہیں دیکھنے کا فیصلہ کیا ۔مولوی روبی کے ھونٹ وحشیوں کی طرح چوس رھا تھا ۔ مجھے لگ رہا تھا کہیں یہ کاٹ نہ دے روبی کے ھونٹوں کو ۔خیر مولوی نے ایک ہاتھ روبی کی کمر کے گرد ڈالا ھوا تھا اور دوسرے سے روبی کا دوپٹہ نیچے کر کے اسکے بوبز دبا رہا تھا ۔مجھے بڑی حیرت ھوئی یہ دیکھ کر کہ اس وقت روبی نے برا نہیں پہنی تھی ۔ جسکی وجہ سے مولوی بڑ ی آسانی سے اسے دودھ سہلا رہا تھا۔
یہ سب دیکھ کر مجھے غصہ بھی آرہا تھا اور مزہ بھی ۔غصہ اس لیئے کہ مولوی کی نہ تو شکل دیکھنے کی تھی اور نہ ھی عمل اور روبی کی کم عقلی پر شدید غصہ رہا تھا مگر ۔یہ سب منظر دیکھ کر میرے نفس نے بھی کمینگی دکھانا شروع کردی ۔ میر بوبز اکڑ نے لگے نپل تن گئے اور ٹانگو کے بیچ گد گدی ھونے لگی بدن میں گرمی اٹھنے لگی اور من کرنے لگا کہ میرے ھونٹ بھی چوسے جائیں ۔میں ابھی یہ سب سوچ رہی تھی کہ مجھے ھلکی سی جذبات میں ڈوبی آواز نے چونکا دیا ۔ میں خیالوں سے باھر آئی اور دیکھا تو مولوی روبی سے کہہ رہا تھا شربت تو پلاؤ میری جان ۔
روبی بولی ۔ نہیں جان امی آجائیں گی ۔ وہ بولا نہیں آتیں یار ۔۔ میں دیکھ رہا ھوں مان جاؤ نہ روبی ۔ روبی مولوی کی التجاء مان گئی اور اسکی گود سے اتری اور کھڑی ھو کر اپنی قمیض اوپر اٹھا دی ایک طرف سے تو اسکا ای مما باھر نکل آیا ۔۔ میں نے مولوی کی آنکھوں میں دیکھا تو ان میں روبی کا دودھ دیکھتے ھی عجیب چمک آگئی اور اس نے ایک بار باھر کی طرف غور سے دیکھا اور اٹھا پھر جھک کر روبی کے دوھ کو پکڑا اور اسکے اکڑے ھوئے نپل کو منہ میں لیکر چوسنے لگا ۔ روبی کا جسم اندر سے کچھ وائٹ تھا اس وقت تو وہ مجھے بھی خوبصورت لگ رہی تھی ۔ اسکے نپل کو چوستے ھوئے مولوی نے کاٹا تو روبی کی آہ نکل گئی اور بولی پلیز دھیرے سے چوسو جان ۔ پھر مجھے دن بھر درد ھوتا رہتا ھے ان میں آپکے کاٹنے سے ۔
یہ سب دیکھتے ھوئے میں نے اندر جانے کا فیصلہ کیا اور پردہ اٹھایا اور اندر داخل ھوتے ھی حیرانی سے ھلکی سی چیخی ۔۔ھائیں ۔۔۔۔۔روبی تم یہ کیا ۔۔مجھ پہ نظر پرتے ھی مولوی تو سن ھو گیا ۔ اور روبی جلدی سے قمیض ٹھیک کرتی ھوئی میرے پاس آئی وہ پسینے میں بھیگی ھوئی تھی ۔اور جلدی سے میرے لبوں پہ ھاتھ رکھا اور میرے بازو سے پکڑ کر اپنے بستر پہ بٹھادیا ۔۔پھر سنبھلتی ھوئی بولی ۔ مونا ۔۔تو کب آئی یار ؟
میں نے غصے اور طنز سے کہا جب سے تم نے یہ فلم شروع کی تب سے ۔۔
میں اٹھتے ھوئے بولی ۔چھوڑ مجھے روبی میں آنٹی کو بلاتی ھوں ۔اور سب بتاتی ھوں ۔
یہ سنتے ھی مولوی کا رنف فق ھو گیا وہ میرے آگے ھاتھ جوڑ کے کھڑا ھو گیا اور بولا ۔ باجی ۔آپ کو خدا کا واسطہ مجھے معاف کر دیں ۔۔ میری توبہ ھے آئندہ ایسا کچھ بھی نہیں کروں گا ۔باجی ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ میرے پاؤ پہ گر جائے گا ۔ وہ گڑ گڑا رہا تھا ۔ میں نے دل میں سوچا یار میں کونسا پاک صاف ھوں ۔اور وھہں پر نفس نے بھی حملہ کیا اور ایک ترکیب میرے دماغ میں فوراَ آئی ۔ میں بولی اچھا ایک شرط ھے اب روز میرے سامنے پڑھایا کرنا ۔وہ بولا ٹھیک ھے جی مجھے کوئی اعتراض نہیں آپ اگر نہیں بھی ھوں گی تو میں اسے ھاتھ نہیں لگاؤنگا باجی آپکا احسان ھو گا مجھ پر ۔میں بولی ٹھیک ھے اپنی حالت ٹھیک کرو اور بیٹھ جاؤ۔ مولوی کی ٹانگیں اور پورا بدن کانپ رہا تھا ۔مجھے خطرہ تھا کہیں بیچارہ بے ھوش ھی نہ ھو جائے ۔
اتنے میں آنٹی نے کچن سے آوازدی روبی چائے لے جاؤ ۔
میں نے روبی کی طرف دیکھا تو اسکی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ چائے لا سکتی میں بولی تم بیٹھو میں لے آتی ھوں میں کچن میں گئی تو آنٹی رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھیں ۔ انہوں نے میرے لیئے بھی چائے بنا دی تھی میں ڈش اٹھائی اور واپس کمرے میں آگئی اور اپنا کپ اٹھاکر ایک چسکی لی اور بولی "روبی آنٹی یہاں تمہارے کمرے میں نہیں آتیں پڑھنے کے وقت ؟
تو وہ بولی نہیں یار وہ بس انہیں بٹھا کر اپنے کام میں ل جاتی ھیں اور کہتی ھیں میرے بار بار آنے سے تم ڈسٹرب ھو گی ۔
میں بولی "اچھا تو اسکا فائدہ تم نے یوں اٹھایا "
میں نے روبی کو کہا اپنے مولوی صاحب کو پانی پلاؤ انکے تو ھاتھ پیر ھی نہیں قابو ھو رھے ۔ جب اتنا ڈرتے ھیں تو پھر یہ کام ھی کیوں کرتے ھیں ۔
وہ بولا باجی میں اس سے پیار کرتا ھوں اور شادی کرنا چاھتا ھوں ۔میں کچھ غلط نہیں کرتا اسکے ساتھ بس ۔آج ھی اتنا ھوا ھے ۔
میں بولی مولوی جی ۔ آپ جو کر رہے تھے یہ غلط نہیں تھا تو پھر کیا تھا ؟
اگر یہ سب ٹھیک تھا تو پھر سب کے سامنے کریں نا ں۔ یوں چھپ کر کرنے کی کیا تُک ھے ۔
پھر میں بولی اب چائے پی لیں ٹھنڈی ھو رہی ھے مولوی صاحب۔
اور وہ چائے پینے لگا ۔ میں بھی چائے کی چسکیاں لینے لگی ۔ کچھ دیر بعد مولوی صاحب جانے کیلئے اٹھے تو میں بولی ۔ کل لازمی آئیے گا ۔ ورنہ میں آپکے گھر پہچ جاؤنگی مجھے آپ کافی ڈرپوک لگتے ھیں ۔
وہ بولا ۔ نہیں باجی میں ضرور آؤن گا ۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور میں وہیں بیٹھی رہی کیوں کہ روبی بھی اسے دروازے تک چھوڑنے گئی تھی۔
وہ واپس آئی تو اسکا موڈ آف تھا میں نے اسے کہا یار کیا بات ھے " تو ٹینشن کیوں لے رہی ھے میں نے صرف مولوی کو ڈرانے کیلئے یہ سب کہا ورنہ تو میری جان ھے تجھے میں کیسے پریشان کر سکتی ھوں ۔
وہ بولی ۔میں بہت بڑی غلطی کی تجھے بتا کر نہ بتا تی اور نہ ھی تو آتی ۔ صابر بہت ڈر گئے ھیں کہہ رھے تھے یہ لڑکی کوئی ھنگامہ نہ کھڑا کردے ۔ میں نے انہیں تسلی دی ھے کہ یہ میری اچھی سہیلی ھے اسے میرے جذبات کا معلوم ھے ایسا نہیں کریگی مگر وہ یقین نہیں کر رہا ۔۔مونا تم نے اچھا نہیں کیا ۔اگر ھمیں دیکھ ھی لیا تھا تو چھپ کر ھی دیکھتی رہتی ۔تمہیں کیا تکلیف ھو رہی تھی وہ کر تو میرے ساتھ رہے تھے ناں ۔جو بھی ھونا تھا میرے ساتھ ھونا تھا تجھے کیا تکلیف ھوئی کہ تو نے سارا مزہ کرکرا کر دیا ۔
میں یہ سن کر مسکرادی اور اٹھ کر روبی کے قریب گئی اور اسکا ایک ہاتھ اوپر اٹھا یا اور اسکی پشت پر پیار سے چوما اور بولی " دیکھ روبی میں تیری سہیلی بھی ھوں اور ھمراز بھی سچ بتاؤں یہ سب میں نے اس لیئے کیا کیونکہ مجھے بھی کھجلی ھونےلگی تھی تمہاری حرکتیں دیکھ کر میرا من کر رہا تھا کہ میں بھی تمہارے ساتھ شامل ھو جاؤں بس یہ سب مجھ سے برداشت نہیں ھوا تو میں آگئی /
وہ سب سن کر حیرت سے میرا منہ تکنے لگی ۔
پھر بولی "مونا مگر یہ کیسے ممکن ھے ؟
میرا مطلب ھے ھم دونوں تو پیار کرتے ھیں جبھی ایک دوسرے کے اتنا قریب آئے ھیں تمہارا تو کوئی رشتہ نہیں صابر سے پھر وہ کیسے تم سے یہ سب کرے گا ۔یا تم کیسے کرواؤ گی؟
میں بولی دیکھ یار ۔میں بھی انسان ھوں میرا بھی دل کرتا ھے کوئی مجھے پیار کرے تو جانتی ھے میرے منگیتر نے مجھے اس سب کا عادی بنایا ھے مگر اب مجھے چھوڑ گیا ھے اور میں بھٹکتی پھر رہی ھوں ۔ ایک دوست ھی دوسرے کی مدد کرتا ھے ناں اور تو میری دوست ھے ۔پلیز میری مدد کرنے سے کیا جائے گا ۔ کون سا تیرے مولوی کی زبان گھس جائے گی مجھے پیار کرنے سے ۔ یار پھر تو جانتی ھے تو اکیلی کب تک اس راز کو چھپاتی پھرے گی اگر میں تیرے ساتھ ھوئی تو کسی کو شک بھی نہیں ھو گا او ھم دونوں کا کام بھی چلتا رہے گا ۔ وہ میری بات سن کے خاموش ھو گئی اور کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی ، چل ایک وعدہ کر تو کبھی اسکا اندر نہیں لے گی ۔کیونکہ وہ صرف میرا ھے ۔باقی جو دل چاھے کروالینا میں مان گئی ۔
یہ سنتے ھی میں نے اسے اپنی طرف کھینچا اور اسکے ھونٹوں پر اپنے گرم ھونٹ رکھ دیئے اور چومنے لگی وہ کسمساتے ھوئے بولی ۔یار مونا امی نہ آجائی ۔میں اسکے لبوں کو چھوڑتے ھوئے بے اختیار ھنس پڑی ۔اور بولی پاگل جب آنٹی کو مولوی پر اتنا اعتماد ھے تو مجھ پر کتنا ھو گا ۔ آجا آج اپنے چاکلیٹی ھونٹ دے میں بھی چکھوں ان میں کتنا مٹھاس ھے ۔تیرا مولوی تو وحشیوں کی طر ح چوس رہا تھا۔