१. बाली उमर की प्यास उर्दू Version Click Here
२. बाली उमर की प्यास हिंदी Version Click Here
२. बाली उमर की प्यास हिंदी Version Click Here
بالی اُمر کی پیاس
دوستوں میںیانی آپکا دوست راج شرما ایک اؤر مست کمسِن کلی کی داستان لیکر ہاجِر ہُوں
ہائی، میں اَںجلِ۔ّ۔! کھیر چھچوڑو! نام میں کیا رکھا ہے؟ چھِچھورے لڑکوں کو ویسے بھی نام سے زیادا 'کام' سے متلب رہتا ہے۔ اِسیلِئے سِرف 'کام' کی ہی باتیں کرُوںگی۔
میں آج 18 کی ہو گیی ہُوں۔ کُچّھ برس پہلے تک میں بِلکُل 'پھلیٹ' تھی۔۔ آگے سے بھی۔۔ اؤر پِچھے سے بھی۔ پر سکُول بس میں آتے جاتے; لڑکوں کے کںدھوں کی رگڑ کھا کھا کر مُجھے پتا ہی نہی چلا کی کب میرے کُلہوں اؤر چھاتِیو پر چربی چڑھ گیّ۔۔ بالی اُمر میں ہی میرے نِتںب بیچ سے ایک پھاںک نِکالے ہُئے گول تربُوج کی ترہ اُبھر گیے۔ میری چھاتی پر بھگوان کے دِئے دو اَنمول 'پھل' بھی اَب 'اَمرُودوں' سے بڑھکر موٹی موٹی 'سیبوں' جیسے ہو گیے تھے۔ میں کیِ بار باتھرُوم میں نںگی ہوکر اَچرج سے اُنہے دیکھا کرتی تھی۔۔ چھچھُو کر۔۔ دبا کر۔۔ مسل کر۔ مُجھے ایسا کرتے ہُئے اَجیب سا آنںد آتا ۔۔ 'وہاں بھی۔۔ اؤر نیچے بھی۔
میرے گورے چِٹ بدن پر اُس چھہوٹی سی کھاس جگہ کو چھچوڑکر کہیں بالوں کا نامو-نِشان تک نہی تھا۔۔ ہُلکے ہُلکے میری بگل میں بھی تھے۔ اُسکے اَلاوا گردن سے لیکر پیروں تک میں ایکدُوم چِکنی تھی۔ کلاس کے لڑکوں کو للچائی نزروں سے اَپنی چھاتی پر جھُول رہے 'سیبوں' کو گھُورتے دیکھ میری جاںگھوں کے بیچ چھِپِ بیٹھی ہُلکے ہُلکے بالوں والی، مگر چِکناہٹ سے بھری تِتلی کے پںکھ پھڑپھڑنے لگتے اؤر چُوچِیو پر گُلابی رںگت کے 'اَنار دانے' تن کر کھڑے ہو جاتے۔ پر مُجھے کوئی پھرک نہی پڑا۔ ہاں، کبھی کبھار شرم آ جاتی تھی۔ یے بھی نہی آتی اَگر ممّی نے نہی بولا ہوتا،"اَب تُو بڑی ہو گیی ہے اَںجُو۔۔ برا ڈالنی شُرُو کر دے اؤر چُنّی بھی لِیا کر!"
سچ کہُوں تو مُجھے اَپنے اُنمُکت اُرجوں کو کِسی مریادا میں باںدھ کر رکھنا کبھی نہی سُہایا اؤر نا ہی اُنکو چُنّی سے پردے میں رکھنا۔ مؤکا مِلتے ہی میں برا کو جانبُوجھ کر باتھرُوم کی کھُوںٹِ پر ہی ٹاںگ جاتی اؤر کلاس میں منچلے لڑکوں کو اَپنے اِرد گِرد مںڈراتے دیکھ مزے لیتی۔۔ میں اَکسر جان بُوجھ اَپنے ہاتھ اُپر اُٹھا اَںگڑائی سی لیتی اؤر میری چُوچِیا تن کر جھُولنے سی لگتی۔ اُس وقت میرے سامنے کھڑے لڑکوں کی ہالت کھراب ہو جاتی۔ّ۔ کُچّھ تو اَپنے ہوںٹو پر ایسے جیبھ پھیرنے لگتے مانو مؤکا مِلتے ہی مُجھے نوچ ڈالیںگے۔ کلاس کی سب لڑکِیاں مُجھسے جلنے لگی۔۔ ہالاںکِ 'وو' سب اُنکے پاس بھی تھا۔۔ پر میرے جیسا نہی۔۔
میں پڑھائی میں بِلکُل بھی اَچّھِ نہی تھی پر سبھی میل-ٹیچرس کا 'پُورا پیار' مُجھے مِلتا تھا۔ یے اُنکا پیار ہی تو تھا کِ ہوم-ورک نا کرکے لے جانے پر بھی وو مُسکُرکر بِنا کُچّھ کہے چُپچاپ کاپی بںد کرکے مُجھے پکڑا دیتے۔۔ باکی سب کی پِٹائی ہوتی۔ پر ہاں، وو میرے پڑھائی میں دھیان نا دینے کا ہرجانا وسُول کرنا کبھی نہی بھُولتے تھے۔ جِس کِسی کا بھی کھالی پیرِیڈ نِکل آتا; کِسی نا کِسی بہانے سے مُجھے سٹیپھرُم میں بُلا ہی لیتے۔ میرے ہاتھوں کو اَپنے ہاتھ میں لیکر مسلتے ہُئے مُجھے سمجھاتے رہتے۔ کمر سے چِپکا ہُآ اُنکا دُوسرا ہاتھ دھیرے دھیرے پھِسلتا ہُآ میرے نِتںبوں پر آ ٹِکتا۔ مُجھے پڑھائی پر 'اؤر زیادا' دھیان دینے کو کہتے ہُئے وو میرے نِتںبوں پر ہلکی ہلکی چپت لگتے ہُئے میرے نِتںبوں کی تھِرکن کا مزا لُوٹ'تے رہتے۔۔ مُجھے پڑھائی کے فایڈے گِنواتے ہُئے اَکسر وو 'بھاوُک' ہو جاتے تھے، اؤر چپت لگانا بھُول نِتںبوں پر ہی ہاتھ جما لیتے۔ کبھی کبھی تو اُنکی اُںگلِیاں سکرٹ کے اُپر سے ہی میری 'درار' کی گہرائی ماپنے کی کوشِش کرنے لگتی۔ّ۔
اُنکا دھیان ہر وقت اُنکی تھپکیّوں کے کارن لگاتار تھِرکتِ رہتی میری چُوچِیو پر ہی ہوتا تھا۔۔ پر کِسی نے کبھی 'اُنن' پر جھپٹّا نہی مارا۔ شاید 'وو' یے سوچتے ہوںگے کِ کہیں میں بِدک نا جاُّوں۔۔ پر میں اُنکو کبھی چاہکر بھی نہی بتا پائی کی مُجھے ایسا کرواتے ہُئے میٹھی-میٹھی کھُجلی ہوتی ہے اؤر بہُت آنںد آتا ہے۔ّ۔
ہاں! ایک بات میں کبھی نہی بھُول پاُّنگِ۔۔ میرے ہِسٹری والے سر کا ہاتھ ایسے ہی سمجھاتے ہُئے ایک دِن کمر سے نہی، میرے گھُٹنو سے چلنا شُرُو ہُآ۔۔ اؤر دھیرے دھیرے میری سکرٹ کے اَںدر گھُس گیا۔ اَپنی کیلے کے تنے جیسی لںبی گوری اؤر چِکنی جاںگھوں پر اُنکے 'کاںپتے' ہُئے ہاتھ کو مہسُوس کرکے میں مچل اُٹھی تھی۔ّ۔ کھُشی کے مارے مینے آںکھیں بںد کرکے اَپنی جاںگھیں کھول دی اؤر اُنکے ہاتھ کو میری جاںگھوں کے بیچ میں اُپر چڑھتا ہُآ مہسُوس کرنے لگی۔۔ اَچانک میری پھُول جیسی نازُک یونِ سے پانی سا ٹپکنے لگا۔۔
اَچانک اُنہونے میری جاںگھوں میں بُری ترہ پھںسی ہُئی 'نِکّر' کے اَںدر اُںگلی گھُسا دی۔۔ پر ہڑبڑی اؤر جلدبازی میں غلتی سے اُنکی اُںگلی سیدھی میری چِکنی ہوکر ٹپک رہی یونِ کی موٹی موٹی پھاںکوں کے بیچ گھُس گیّ۔۔ میں درد سے تِلمِلا اُٹھی۔۔ اَچانک ہُئے اِس پرہار کو میں سہن نہی کر پائی۔ چھٹپٹاتے ہُئے مینے اَپنے آپکو اُنسے چھُڑایا اؤر دیوار کی ترپھ مُںہ پھیر کر کھڑی ہو گیّ۔ّ۔ میری آںکھیں دبدبا گیی تھی۔۔
میں اِس ساری پرکرِیا کے 'پیار سے' پھِر شُرُو ہونے کا اِںتجار کر ہی رہی تھی کِ 'وو' ماسٹر میرے آگے ہاتھ جوڑکر کھڑا ہو گیا،"پلیز اَںجلِ۔۔ مُجھسے غلتی ہو گیّ۔۔ میں بہک گیا تھا۔ّ۔ کِسی سے کُچّھ مت کہنا۔۔ میری نؤکری کا سوال ہے۔ّ۔!" اِس'سے پہلے میں کُچّھ بولنے کی ہِمّت جُٹاتی; بِنا متلب کی بکبک کرتا ہُآ وو سٹیپھرُم سے بھاگ گیا۔۔ مُجھے تڑپتِ چھچوڑکر۔۔
نِگوڈی 'اُںگلی' نے میرے یؤون کو اِس کدر بھڑکایا کی میں اَپنے جلوّں سے لڑکوں کے دِلوں میں آگ لگانا بھُول اَپنی ننہی سی پھُدکٹی یونِ کی پیاس بُجھانے کی جُگت میں رہنے لگی۔ اِسکے لِئے مینے اَپنے اَںگ-پردرشن اَبھِیان کو اؤر تیج کر دِیا۔ اَںجان سی بنکر، کھُجلی کرنے کے بہانے میں بیںچ پر بیٹھی ہُئی سکرٹ میں ہاتھ ڈال اُسکو جاںگھوں تک اُپر کھِسکا لیتی اؤر کلاس میں لڑکوں کی سیٹِیاں بجنے لگتی۔ اَب پُورے دِن لڑکوں کی باتوں کا کیندر میں ہی رہنے لگی۔ آج اَہساس ہوتا ہے کِ یونِ میں ایک بار اؤر مردانی اُںگلی کروانے کے چکّر میں میں کِتنی بدنام ہو گیی تھی۔
کھیر; میرا 'کام' جلد ہی بن جاتا اَگر 'وو' (جو کوئی بھی تھا) میرے بیگ میں نِہایت ہی اَشلیل لیٹر ڈالنے سے پہلے مُجھے بتا دیتا۔ کاش لیٹر میرے کشوٹُو بھیّا سے پہلے مُجھے مِل جاتا! 'گدھے' نے لیٹر سیدھا میرے شرابی پاپا کو پکڑا دِیا اؤر رات کو نشے میں دھُتت ہوکر پاپا مُجھے اَپنے سامنے کھڑی کرکے لیٹر پڑھنے لگے:
" ہائی جانے-من!
کیا کھاتی ہو یار؟ اِتنی مست ہوتی جا رہی ہو کِ سارے لڑکوں کو اَپنا دیوانا بنا کے رکھ دِیا۔ تُمہاری 'پپیتے' جیسے چُونچِیو نے ہمیں پہلے ہی پاگل بنا رکھا تھا، اَب اَپنی گؤری چِکنی جاںگھیں دِکھا دِکھا کر کیا ہماری جان لینے کا اِرادا ہے؟ ایسے ہی چلتا رہا تو تُم اَپنے ساتھ 'اِس' سال ایگزیم میں سب لڑکوں کو بھی لے ڈُبگی۔۔
پر مُجھے تُمسے کوئی گِلا نہی ہے۔ تُمہاری مستانی چُونچِیا دیکھکر میں دھنے ہو جاتا تھا; اَب نںگی چِکنی جاںگھیں دیکھکر تو جیسے اَمر ہی ہو گیا ہُوں۔ پھِر پاس یا پھیل ہونے کی پرواہ کِسے ہے اَگر روج تُمہارے اَںگوں کے درشن ہوتے رہیں۔ ایک رِکویسٹ ہے، پلیز مان لینا! سکرٹ کو تھوڑا سا اؤر اُپر کر دِیا کرو تاکِ میں تُمہاری گیلی 'کcچِ' کا رںگ دیکھ سکُوں۔ سکُول کے باتھرُوم میں جاکر تُمہاری کلپنا کرتے ہُئے اَپنے لںڈ کو ہِلاتا ہُوں تو بار بار یہی سوال مںن میں اُبھرتا رہتا ہے کِ 'کچّچی' کا رںگ کیا ہوگا۔۔ اِس وجہ سے میرے لںڈ کا رس نِکلنے میں دیری ہو جاتی ہے اؤر کلاس میں ٹیچرس کی سُن'نِ پڑتی ہے۔ّ۔ پلیز، یے بات آگے سے یاد رکھنا!
تُمہاری کسم جانے-من، اَب تو میرے سپنو میں بھی پرِیںکا چوپڑا کی جگہ نںگی ہوکر تُم ہی آنے لگی ہو۔ 'وو' تو اَب مُجھے تُمہارے سامنے کُچّھ بھی نہی لگتی۔ سونے سے پہلے 2 بار خیالوں میں تُمہے پُوری نںگی کرکے چود'تے ہُئے اَپنے لںڈ کا رس نِکلتا ہُوں، پھِر بھی سُبہ میرا 'کچّچھا' گیلا مِلتا ہے۔ پھِر سُبہ بِستیر سے اُٹھنے سے پہلے تُمہے ایک بار زرُور یاد کرتا ہُوں۔
مینے سُنا ہے کِ لڑکِیوں میں چُدائی کی بھُوکھ لڑکوں سے بھی زیادا ہوتی ہے۔ تُمہارے اَںدر بھی ہوگی نا؟ ویسے تو تُمہاری چُدائی کرنے کے لِئے سبھی اَپنے لںڈ کو تیل لگائے پھِرتے ہیں; پر تُمہاری کسم جانیمن، میں تُمہے سبسے زیادا پیار کرتا ہُوں، اَسلی والا۔ کِسی اؤر کے بہکاوے میں مت آنا، زیاداتر لڑکے چودتے ہُئے پاگل ہو جاتے ہیں۔ وو تُمہاری کُںواری چُوت کو ایکدُوم پھاڑ ڈالیںگے۔ پر میں سب کُچّھ 'پیار سے کرُوںگا۔۔ تُمہاری کسم۔ پہلے اُںگلی سے تُمہاری چُوت کو تھوڑی سی کھولُوںگا اؤر چاٹ چاٹ کر اَںدر باہر سے پُوری ترہ گیلی کر دُوںگا۔۔ پھِر دھیرے دھیرے لںڈ اَںدر کرنے کی کوشِش کرُوںگا، تُمنے کھُشی کھُشی لے لِیا تو ٹھیک، ورنا چھچوڑ دُوںگا۔۔ تُمہاری کسم جانیمن۔
اَگر تُمنے اَپنی چھُدائی کروانے کا مُوڈ بنا لِیا ہو تو کل اَپنا لال رُمال لیکر آنا اؤر اُسکو رِسیس میں اَپنے بیںچ پر چھچوڑ دینا۔ پھِر میں بتاُّنگا کِ کب کہاں اؤر کیسے مِلنا ہے!
پلیز جان، ایک بار سیوا کا مؤکا زرُور دینا۔ تُم ہمیشا یاد رکھوگی اؤر روج روج چُدائی کروانے کی سوچوگی، میرا داوا ہے۔
تُمہارا آشِق!
لیٹر میں شُدّھ 'کامرس' کی باتیں پڑھتے پڑھتے پاپا کا نشا کب کاپھُور ہو گیا، شاید اُنہے بھی اَہساس نہی ہُآ۔ سِرف اِسیلِئے شاید میں اُس رات کُںواری رہ گیّ۔ ورنا وو میرے ساتھ بھی ویسا ہی کرتے جیسا اُنہونے بڑی دیدی 'نِمّو' کے ساتھ کُچّھ سال پہلے کِیا تھا۔
میں تو کھیر اُس وقت چھہوٹی سی تھی۔ دیدی نے ہی بتایا تھا۔ سُنی سُنائی بتا رہی ہُوں۔ وِسواس ہو تو ٹھیک ورنا میرا کیا چاٹ لوگے؟
پاپا نِمّو کو بالوں سے پکڑکر گھسیٹ'تے ہُئے اُپر لائے تھے۔ شراب پینے کے باد پاپا سے اُلجھنے کی ہِمّت گھر میں کوئی نہی کرتا۔ ممّی کھڑی کھڑی تماشا دیکھتی رہی۔ بال پکڑ کر 5-7 کرارے جھاپڑ نِمّوں کو مارے اؤر اُسکی گردن کو دبوچ لِیا۔ پھِر جانے اُنکے مںن میں کیا خیال آیا; بولے،" سزا بھی ویسی ہی ہونی چاہِئے جیسی غلتی ہو!" دیدی کے کمیز کو دونو ہاتھوں سے گلے سے پکڑا اؤر ایک ہی جھٹکے میں تار تار کر ڈالا; کمیز کو بھی اؤر دیدی کی 'اِزّت' کو بھی۔ دیدی کے میری ترہ مستایے ہُئے گول گول کبُوتر جو تھوڑے بہُت اُسکے سمیز نے چھُپا رکھے تھے; اَگلے جھٹکے کے باد وو بھی چھُپے نہی رہے۔ دیدی بتاتی ہیں کِ پاپا کے سامنے 'اُنکو' پھڑکتے دیکھ اُنہے کھُوب شرم آئی تھی۔ اُنہونے اَپنے ہاتھوں سے 'اُنہے' چھِپانے کی کوشِش کی تو پاپا نے 'ٹیچرس' کی ترہ اُسکو ہاتھ اُپر کرنے کا آدیش دے دِیا۔۔ 'ٹیچرس' کی بات پر ایک اؤر بات یاد آ گیّ، پر وو باد میں سُناُّنگِ۔ّ۔۔
ہاں تو میں بتا رہی تھی۔۔ ہاں۔۔ تو دیدی کے دونو سںترے ہاتھ اُپر کرتے ہی اؤر بھی تن کر کھڑے ہو گیے۔ جیسے اُنکو شرم نہی گرو ہو رہا ہو۔ دانو کی نوک بھی پاپا کی اؤر ہی گھُور رہی تھی۔ اَب بھلا میرے پاپا یے سب کیسے سہن کرتے؟ پاپا کے سامنے تو آج تک کوئی بھی نہی اَکڑا تھا۔ پھِر وو کیسے اَکڑ گیے؟ پاپا نے دونو چُوچِیوں کے دانوں کو کسکر پکڑا اؤر مسل دِیا۔ دیدی بتاتی ہیں کِ اُس وقت اُنکی یونِ نے بھی رس چھچوڑ دِیا تھا۔ پر کمبخت 'کبُوتروں' پر اِسکا کوئی اَسر نہی ہُآ۔ وو تو اؤر زیادا اَکڑ گیے۔
پھِر تو دیدی کی کھیر ہی نہی تھی۔ گُسّے کے مارے اُنہونے دیدی کی سلوار کا ناڈا پکڑا اؤر کھیںچ لِیا۔ دیدی نے ہاتھ نیچے کرکے سلوار سںبھالنے کی کوشِش کی تو ایک ساتھ کیِ جھاپڑ پڑے۔ بیچاری دیدی کیا کرتی؟ اُنکے ہاتھ اُپر ہو گیے اؤر سلوار نیچے۔ گُسّے گُسّے میں ہی اُنہونے اُنکی 'کچھِ' بھی نیچے کھیںچ دی اؤر گُرّاتے ہُئے بولے،" کُتِیا! مُرگی بن جا اُدھر مُںہ کرکے"۔۔ اؤر دیدی بن گیی مُرگی۔
ہائے! دیدی کو کِتنی شرم آئی ہوگی، سوچ کر دیکھو! پاپا دیدی کے پِچھے چارپائی پر بیٹھ گیے تھے۔ دیدی جاںگھوں اؤر گھُٹنو تک نِکلی ہُئی سلوار کے بیچ میں سے سب کُچّھ دیکھ رہی تھی۔ پاپا اُسکے گول مٹول چُوتدوں کے بیچ اُنکے دونو چھیدو کو گھُور رہے تھے۔ دیدی کی یونِ کی پھاںکیں ڈر کے مارے کبھی کھُل رہی تھی، کبھی بںد ہو رہی تھی۔ پاپا نے گُسّے میں اُسکے نِتںبوں کو اَپنے ہاتھوں میں پکڑا اؤر اُنہے بیچ سے چیرنے کی کوشِش کرنے لگے۔ شُکرا ہے دیدی کے چُوتڑ سُڈؤل تھے، پاپا سپھل نہی ہو پائے!
"کِسی سے مروا بھی لی ہے کیا کُتِیا؟" پاپا نے تھک ہار کر اُنہے چھچوڑتے ہُئے کہا تھا۔
دیدی نے بتایا کِ منا کرنے کے باوجُود اُنکو وِسواس نہی ہُآ۔ ممّی سے مومبتّی لانے کو بولا۔ ڈری سہمی درواجے پر کھڑی سب کُچّھ دیکھ رہی ممّی چُپ چاپ رسوئی میں گیی اؤر اُنکو مومبتّی لاکر دے دی۔
جیسا 'اُس' لڑکے نے کھت میں لِکھا تھا، پاپا بڑے نِردیی نِکلے۔ دیدی نے بتایا کی اُنکی یونِ کا چھید موٹی مومبتّی کی پتلی نوک سے ڈھُوںڈھ کر ایک ہی جھٹکے میں اَںدر گھُسا دی۔ دیدی کا سِر سیدھا زمین سے جا ٹکرایا تھا اؤر پاپا کے ہاتھ سے چھچھُوٹنے پر بھی مومبتّی یونِ میں ہی پھںسی رہ گیی تھی۔ پاپا نے مومبتّی نِکالی تو وو کھُون سے لتھپتھ تھی۔ تب جاکر پاپا کو یکین ہُآ کِ اُنکی بیٹی کُںواری ہی ہے (تھی)۔ ایسا ہے پاپا کا گُسّا!
دیدی نے بتایا کِ اُس دِن اؤر اُس 'مومبتّی' کو وو کبھی نہی بھُول پائی۔ مومبتّی کو تو اُسنے 'نِشانی' کے تؤر پر اَپنے پاس ہی رکھ لِیا۔۔ وو بتاتی ہیں کِ اُسکے باد شادی تک 'وو' مومبتّی ہی بھری جوانی میں اُنکا سہارا بنی۔ جیسے اَںدھے کو لکڑی کا سہارا ہوتا ہے، ویسے ہی دیدی کو بھی مومبتّی کا سہارا تھا شاید
کھیر، بھگوان کا شُکر ہے مُجھے اُنہونے یے کہکر ہی بکھس دِیا،" کُتِیا! مُجھے وِسواس تھا کِ تُو بھی میری اؤلاد نہی ہے۔ تیری ممّی کی ترہ تُو بھی رںڈی ہے رںڈی! آج کے باد تُو سکُول نہی جاّیگی" کہکر وو اُپر چلے گیے۔۔ تھیںک گاڈ! میں بچ گیّ۔ دیدی کی ترہ میرا کُںواراپن دیکھنے کے چکّر میں اُنہونے میری سیل نہی توڑی۔
لگے ہاتھوں 'دیدی' کی وو چھہوٹی سی غلتی بھی سُن لو جِسکی وجہ سے پاپا نے اُنہے اِتنی 'سخت' سزا دی۔ّ۔
دراَسل گلی کے 'کلُّو' سے بڑے دینو سے دیدی کی گُٹرگُو چل رہی تھی۔۔ بس آںکھوں اؤر اِشاروں میں ہی۔ دھیرے دھیرے دونو ایک دُوسرے کو پریمپاتر لِکھ لِکھ کر اُنکا 'جہاز' بنا بنا کر ایک دُوسرے کی چھتو پر پھیںکنے لگے۔ دیدی بتاتی ہیں کِ کیِ بار 'کلُّو' نے چُوت اؤر لںڈ سے بھرے پریمپاتر ہماری چھت پر اُڑائے اؤر اَپنے پاس بُلانے کی پرارتھنا کی۔ پر دیدی بیبس تھی۔ کارن یے تھا کی شام 8:00 بجتے ہی ہمارے 'سرِیوں' والے درواجے پر تالا لگ جاتا تھا اؤر چابی پاپا کے پاس ہی رہتی تھی۔ پھِر نا کوئی اَںدر آ پتا تھا اؤر نا کوئی باہر جا پتا تھا۔ آپ کھُد ہی سوچِئے، دیدی بُلاتی بھی تو بُلاتی کیسے؟
پر ایک دِن کلُّو تیش میں آکر سنّی دیاول بن گیا۔ 'جہاز' میں لِکھ بھیجا کِ آج رات اَگر 12:00 بجے درواجا نہی کھُلا تو وو سرِیا اُکھاڑ دیگا۔ دیدی بتاتی ہیں کِ ایک دِن پہلے ہی اُنہونے چھت سے اُسکو اَپنی چُوت، چُوچِیاں اؤر چُوتڑ دِکھائے تھے، اِسیلِئے وہ پاگلا گیا تھا، پاگل!
دیدی کو 'پیار' کے جوش اؤر جزبے کی پرکھ تھی۔ اُنکو وِسواس تھا کِ 'کلُّو' نے کہ دِیا تو کہ دِیا۔ وو زرُور آایگا۔۔ اؤر آیا بھی۔ دیدی 12 بجنے سے پہلے ہی کلُّو کو مناکر درواجے کے 'سرِے' بچانے نیچے پہُںچ چُکی تھی۔۔ ممّی اؤر پاپا کی چارپائی کے پاس ڈالی اَپنی چارپائی سے اُٹھکر!
دیدی کے لاکھ سمجھنے کے باد وو ایک ہی شرت پر مانا "چُوس چُوس کر نِکلوانا پڑیگا!"
دیدی کھُش ہوکر مان گیی اؤر جھٹ سے گھُٹنے ٹکے کر نیچے بیٹھ گیّ۔ دیدی بتاتی ہیں کِ کلُّو نے اَپنا 'لںڈ' کھڑا کِیا اؤر سرِیوں کے بیچ سے دیدی کو پکڑا دِیا۔۔ دیدی بتاتی ہیں کِ اُسکو 'وو' گرم گرم اؤر چُوسنے میں بڑا کھٹّا میٹھا لگ رہا تھا۔ چُوسنے چُوسنے کے چکّر میں دونو کی آںکھ بںد ہو گیی اؤر تبھی کھُلی جب پاپا نے پِچھے سے آکر دیدی کو پِچھے کھیںچ لںڈ مُسکِل سے باہر نِکلوایا۔
پاپا کو دیکھتے ہی گھر کے سرِیا تک اُکھاڑ دینے کا داوا کرنے والا 'کلُّو دیاول' تو پتا ہی نہی چلا کہاں گایب ہُآ۔ بیچاری دیدی کو اِتنی بڑی سزا اَکیلے سہن کرنی پڑی۔ سالا کلُّو بھی پکڑا جاتا اؤر اُسکے چچھید میں بھی مومبتّی گھُستی تو اُسکو پتا تو چلتا مومبتّی اَںدر ڈلوانے میں کِتنا درد ہوتا ہے۔
کھیر، ہر روز کی ترہ سکُول کے لِئے تیّار ہونے کا ٹائیم ہوتے ہی میری کسی ہُئی چُوچِیا پھڑکنے لگی; 'شِکار' کی تلاش کا ٹائیم ہوتے ہی اُنمیں اَجیب سی گُدگُدی ہونے لگ جاتی تھی۔ مینے یہی سوچا تھا کِ روز کی ترہ رات کی وو بات تو نشے کے ساتھ ہی پاپا کے سِر سے اُتر گیی ہوگی۔ پر ہائے ری میری کِسمت; اِس بار ایسا نہی ہُآ،" کِسلِئے اِتنی پھُدک رہی ہے؟ چل میرے ساتھ کھیت میں!"
"پر پاپا! میرے ایگزیم سِر پر ہیں!" بیشرم سی بنتے ہُئے مینے رات والی بات بھُول کر اُنسے بہس کی۔
پاپا نے مُجھے اُپر سے نیچے تک گھُورتے ہُئے کہا،" یے لے اُٹھا ٹوکری! ہو گیا تیرا سکُول بس! تیری ہازِری لگ جاّیگی سکُول میں! ریںپھل کے لڑکے سے بات کر لی ہے۔ آج سے کالیج سے آنے کے باد تُجھے یہیں پڑھا جایا کریگا! تیّاری ہو جائے تو پیپر دے دینا۔ اَگلے سال تُجھے گرل'س سکُول میں ڈالُوںگا۔ وہاں دِکھانا تُو کچھی کا رںگ!" آخِری بات کہتے ہُئے پاپا نے میری اؤر دیکھتے ہُئے زمین پر تھُوک دِیا۔ میری کچھی کی بات کرنے سے شاید اُنکے مُںہ میں پانی آ گیا ہوگا۔
کام کرنے کی میری آدت تو تھی نہی۔ پُرانا سا لہنگا پہنے کھیت سے لؤٹی تو بدن کی پوری پوری دُکھ رہی تھی۔ دِل ہو رہا تھا جیسے کوئی مُجھے اَپنے پاس لِٹاکر آٹے کی ترہ گُوںتھ ڈالے۔ میری اُپر جانے تک کی ہِمّت نہی ہُئی اؤر نیچے کے کمرے میں چارپائی کو سیدھا کرکے اُس پر پسری اؤر سو گیّ۔
---------------------------------------------------------------------------
ریںپھل کا لڑکے نے گھر میں گھُس کر آواز دی۔ مُجھے پتا تھا کِ گھر میں کوئی نہی ہے۔ پھِر بھی میں کُچّھ نا بولی۔ در-اَسل پڑھنے کا میرا مںن تھا ہی نہی، اِسیلِئے سونے کا بہانا کِئے پڑی رہی۔ میرے پاس آتے ہی وو پھِر بولا،"اَںجلِ!"
اُسنے 2-3 بار مُجھکو آواز دی۔ پر مُجھے نہی اُٹھنا تھا سو نہی اُٹھی۔ ہائے ऱااَم! وو تو اَگلے ہی پل لڑکوں والی اؤکات پر آ گیا۔ سیدھا نِتںبوں پر ہاتھ لگاکر ہِلایا،"اَںجلِ۔۔ اُٹھو نا! پڑھنا نہی ہے کیا؟"
اِس ہرکت نے تو دُوسری ہی پڑھائی کرنے کی للک مُجھمیں جگا دی۔ اُسکے ہاتھ کا اَہساس پاتے ہی میرے نِتںب سِکُڈ سے گیے۔ پُورا بدن اُسکے چھُونے سے تھِرک اُٹھا تھا۔ اُسکو میرے جاگ جانے کی غلتپھہمی نا ہو جائے اِسیلِئے نیںد میں ہی بڑبڑانے کا ناٹک کرتی ہُئی میں اُلٹی ہو گیی; اَپنے ماںسل نِتںبوں کی کساوٹ سے اُسکو للچانے کے لِئے۔
سارا گاںو اُس چاسمِش کو شریپھ کہتا تھا، پر وو تو بڑا ہی ہرامی نِکلا۔ ایک بار باہر نزر مار کر آیا اؤر میرے نِتںبوں سے تھوڑا نیچے مُجھسے سٹکار چارپائی پر ہی بیٹھ گیا۔ میرا مُںہ دُوسری ترپھ تھا پر مُجھے یکین تھا کِ وو چوری چوری میرے بدن کی کامُک بناوٹ کا ہی لُتف اُٹھا رہا ہوگا!
"اَںجلِ!" اِس بار تھوڑی تیج بولتے ہُئے اُسنے میرے گھُٹنوں تک کے لہںگے سے نیچے میری نںگی گُدج پِںڈلِیوں پر ہاتھ رکھکر مُجھے ہِلایا اؤر سرکتے ہُئے اَپنا ہاتھ میرے گھُٹنو تک لے گیا۔ اَب اُسکا ہاتھ نیچے اؤر لہںگا اُپر تھا۔
مُجھسے اَب سہن کرنا مُشکِل ہو رہا تھا۔ پر شِکار ہاتھ سے نِکالنے کا ڈر تھا۔ میں چُپّی سادھے رہی اؤر اُسکو جلد سے جلد اَپنے پِںجرے میں لانے کے لِئے دُوسری ٹاںگ گھُٹنو سے موڈی اؤر اَپنے پیٹ سے چِپکا لی۔ اِسکے ساتھ ہی لہںگا اُپر سرکتا گیا اؤر میری ایک جاںگھ کافی اُپر تک نںگی ہو گیّ۔ مینے دیکھا نہی، پر میری کچھی تک آ رہی باہر کی ٹھںڈی ہوا سے مُجھے لگ رہا تھا کِ اُسکو میری کچھی کا رںگ دِکھنے لگا ہے۔
"آ۔ّآنّنجلِ" اِس بار اُسکی آواز میں کںپکپاہٹ سی تھی۔۔ سِسک اُٹھا تھا وو شاید! ایک بار کھڑا ہُآ اؤر پھِر بیٹھ گیا۔۔ شاید میرا لہںگا اُسکے نیچے پھںسا ہُآ ہوگا۔ واپس بیٹھتے ہی اُسنے لہںگے کو اُپر پلٹ کر میری کمر پر ڈال دِیا۔۔
اُسکا کیا ہال ہُآ ہوگا یے تو پتا نہی۔ پر میری یونِ میں بُلبُلے سے اُٹھنے شُرُو ہو چُکے تھے۔ جب سہن کرنے کی ہد پار ہو گیی تو میں نیںد میں ہی بنی ہُئی اَپنا ہاتھ مُوڈی ہُئی ٹاںگ کے نیچے سے لے جاکر اَپنی کچھی میں اُںگلِیاں گھُسا 'وہاں' کھُجلی کرنے کرنے کے بہانے اُسکو کُریدنے لگی۔ میرا یے ہال تھا تو اُسکا کیا ہو رہا ہوگا؟ سُلگ گیا ہوگا نا؟
مینے ہاتھ واپس کھیںچا تو اَہساس ہُآ جیسے میری یونِ کی ایک پھاںک کچھی سے باہر ہی رہ گیی ہے۔ اَگلے ہی پل اُسکی ایک ہرکت سے میں بؤکھلا اُٹھی۔ اُسنے جھٹ سے لہںگا نیچے سرکا دِیا۔ کمبخت نے میری ساری میہنت کو مِٹّی میں مِلا دِیا۔
پر میرا سوچنا غلت سابِت ہُآ۔ وو تو میری اُمّید سے بھی زیادا شاتِر نِکلا۔ ایک آخِری بار میرا نام پُکارتے ہُئے اُسنے میری نیںد کو ماپنے کی کوشِش کی اؤر اَپنا ہاتھ لہںگے کے نیچے سرکتے ہُئے میرے نِتںبوں پر لے گیا۔ّ۔۔
کچھی کے اُپر تھِرکتِ ہُئی اُسکی اُںگلِیوں نے تو میری جان ہی نِکل دی۔ کسے ہُئے میرے چِکنے چُوتدوں پر دھیرے دھیرے مںڈراتا ہُآ اُسکا ہاتھ کبھی 'اِسکو' کبھی اُسکو دبا کر دیکھتا رہا۔ میری چُوچِیاں چارپائی میں دبکر چھیٹپاٹینے لگی تھی۔ مینے بڑی مُشکِل سے کھُد پر کابُو پایا ہُآ تھا۔۔
اَچانک اُسنے میرے لہںگے کو واپس اُپر اُٹھایا اؤر دھیرے سے اَپنی ایک اُںگلی کچھی میں گھُسا دی۔۔ دھیرے دھیرے وا اُںگلی سرکتِ ہُئی پہلے نِتںبوں کی درار میں گھُومی اؤر پھِر نیچے آنے لگی۔۔ مینے دم سادھ رکھا تھا۔۔ پر جیسے ہی اُںگلی میری 'پھُولکُنورِ' کی پھاںکوں کے بیچ آئی; میں اُچّھل پڑی۔۔ اؤر اُسی پل اُسکا ہاتھ وہاں سے ہٹا اؤر چارپائی کا بوجھ کم ہو گیا۔۔
میری چھہوٹی سی مچھلِ تڑپ اُٹھی۔ مُجھے لگا، مؤکا ہاتھ سے گیا۔۔ پر اِتنی آسانی سے میں بھی ہار مان'نے والوں میں سے نہی ہُوں۔ّ۔ اَپنی سِسکِیوں کو نیںد کی بڑبڑاہٹ میں بدل کر میں سیدھی ہو گیی اؤر آںکھیں بںد کِئے ہُئے ہی مینے اَپنی جاںگھیں گھُٹنوں سے پُوری ترہ موڑ کر ایک دُوسری سے وِپریت دِشا میں پھیلا دی۔ اَب لہںگا میرے گھُٹنو سے اُپر تھا اؤر مُجھے وِسواس تھا کِ میری بھیگی ہُئی کچھی کے اَںدر بیٹھی 'چھمّک چھلّو' ٹھیک اُسکے سامنے ہوگی۔
تھوڑی دیر اؤر یُوںہی بڑبڑاتے ہُئے میں چُپ ہو کر گہری نیںد میں ہونے کا ناٹک کرنے لگی۔ اَچانک مُجھے کمرے کی چِتکنِ بںد ہونے کی آواز آئی۔ اَگلے ہی پل وہ واپس چارپائی پر ہی آکر بیٹھ گیا۔۔ دھیرے دھیرے پھِر سے ریںگتا ہُآ اُسکا ہاتھ وہیں پہُںچ گیا۔ میری یونِ کے اُپر سے اُسنے کچھی کو سرکّر ایک ترپھ کر دِیا۔ مینے ہُلکی سی آںکھیں کھولکر دیکھا۔ اُسنے چسمیں نہی پہنے ہُئے تھے۔ شاید اُتار کر ایک ترپھ رکھ دِئے ہوںگے۔ وہ آںکھیں پھیڈ ہُئے میری پھڑکٹی ہُئی یونِ کو ہی دیکھ رہا تھا۔ اُسکے چیہرے پر اُتّیجنا کے بھاو اَلگ ہی نزر آ رہے تھے۔۔
اَچانک اُسنے اَپنا چیہرا اُٹھایا تو مینے اَپنی آںکھیں پُوری ترہ بںد کر لی۔ اُسکے باد تو اُسنے مُجھے ہوا میں ہی اُڑا دِیا۔ یونِ کی دونو پھاںکوں پر مُجھے اُسکے دونو ہاتھ مہسُوس ہُئے۔ بہُت ہی آرام سے اُسنے اَپنے اَںگُوٹھے اؤر اُںگلِیوں سے پکڑ کر موٹی موٹی پھاںکوں کو ایک دُوسری سے اَلگ کر دِیا۔ جانے کیا ڈھُوںڈھ رہا تھا وہ اَںدر۔ پر جو کُچّھ بھی کر رہا تھا، مُجھسے سہن نہی ہُآ اؤر مینے کاںپتے ہُئے جاںگھیں بھیںچ کر اَپنا پانی چھچوڑ دِیا۔۔ پر آسچریجنک ڈھںگ سے اِس بار اُسنے اَپنے ہاتھ نہی ہٹائے۔ّ۔
کِسی کپڑے سے (شاید میرے لہںگے سے ہی) اُسنے یونِ کو ساپھ کِیا اؤر پھِر سے میری یونِ کو چؤڑا کر لِیا۔ پر اَب جھاڑ جانے کی وجہ سے مُجھے نارمل رہنے میں کوئی کھاس دِکّت نہی ہو رہی تھی۔ ہاں، مزا اَب بھی آ رہا تھا اؤر میں پُورا مزا لینا چاہتی تھی۔
اَگلے ہی پل مُجھے گرم ساںسیں یونِ میں گھُستی ہُئی مہسُوس ہُئی اؤر پاگل سی ہوکر مینے وہاں سے اَپنے آپکو اُٹھا لِیا۔۔ مینے اَپنی آںکھیں کھول کر دیکھا۔ اُسکا چیہرا میری یونِ پر جھُکا ہُآ تھا۔۔ میں اَںدازا لگا ہی رہی تھی کِ مُجھے پتا چل گیا کِ وو کیا کرنا چاہتا ہے۔ اَچانک وو میری یونِ کو اَپنی جیبھ سے چاٹنے لگا۔۔ میرے سارے بدن میں جھُرجُری سی اُٹھ گیّ۔ّاِس آنںد کو سہن نا کر پانے کے کارن میری سِسکی نِکل گیی اؤر میں اَپنے نِتںبوں کو اُٹھا اُٹھا کر پٹک'نے لگی۔ّ۔پر اَب وو ڈر نہی رہا تھا۔ّ۔ میری جاںگھوں کو اُسنے کسکر ایک جگہ دبوچ لِیا اؤر میری یونِ کے اَںدر جیبھ گھُسا دی۔۔
"اَیایا!" بہُت دیر سے دبائے رکھا تھا اِس سِسکی کو۔۔ اَب دبی نا رہ سکی۔۔ مزا اِتنا آ رہا تھا کی کیا بتاُّ۔ّ۔ سہن نا کر پانے کے کارن مینے اَپنا ہاتھ وہاں لے جاکر اُسکو وہاں سے ہٹانے کی کوشِش کی تو اُسنے میرا ہاتھ پکڑ لِیا،" کُچّھ نہی ہوتا اَںجلِ۔۔ بس دو مِنِٹ اؤر!" کہکر اُسنے میری جاںگھوں کو میرے چیہرے کی ترپھ دھکیل کر وہیں دبوچ لِیا اؤر پھِر سے جیبھ کے ساتھ میری یونِ کی گہرائی ماپنے لگا۔ّ۔
ہائے رام! اِسکا متلب اُسکو پتا تھا کی میں جاگ رہی ہُوں۔۔ پہلے یے بات بول دیتا تو میں کیُوں گھُٹ گھُٹ کر مزے لیتی، میں جھٹ سے اَپنی کوہنی چارپائی پر ٹکے کر اُپر اُٹھ گیی اؤر سِسکتے ہُئے بولی،" اَیایا۔ّ۔جلدی کرو نا۔۔ کوئی آ جاّیگا نہی تو!"
پھِر کیا تھا۔۔ اُسنے چیہرا اُپر کرکے مُسکُراتے ہُئے میری اؤر دیکھا۔۔ اُسکی ناک پر اَپنی یونِ کا گاڑھا پانی لگا دیکھا تو میری ہںسی چھچھُوٹ گیّ۔۔ اِس ہںسی نے اُسکی جھِجھک اؤر بھی کھول دی۔۔ جھٹ سے مُجھے پکڑ کر نیچے اُتارا اؤر گھُٹنے زمین پر ٹیکا مُجھے کمر سے اُپر چارپائی پر لِٹا دِیا۔ّ،" یے کیا کر رہے ہو؟"
"ٹائیم نہی ہے اَبھی بتانے کا۔۔ باد میں سب بتا دُوںگا۔۔ کِتنی رسیلی ہے تُو ہائے۔۔ اَپنی گیںڈ کو تھوڑا اُپر کر لے۔۔"
"پر کیسے کرُوں؟۔۔ میرے تو گھُٹنے زمین پر ٹیکے ہُئے ہیں۔ّ؟"
"تُو بھی نا۔۔ !" اُسکو گُسّا سا آیا اؤر میری ایک ٹاںگ چارپائی کے اُپر چڑھا دی۔۔ نیچے تکِیا رکھا اؤر مُجھے اَپنا پیٹ وہاں ٹیکا لینے کو بولا۔۔ مینے ویسا ہی کِیا۔۔
"اَب اُٹھاّو اَپنے چُوتڑ اُپر۔۔ جلدی کرو۔۔" بولتے ہُئے اُسنے اَپنا مُوسل جیسا لِںگ پیںٹ میں سے نِکال لِیا۔۔
میں اَپنے نِتںبوں کو اُپر اُٹھاتے ہُئے اَپنی یونِ کو اُسکے سامنے پروسا ہی تھا کِ باہر پاپا کی آواز سُنکر میرا دم نِکل گیا،" پپّپا!" میں چِلّائی۔ّ۔۔
"دو کام کیا کر لِئے; تیری تو جان ہی نِکل گیّ۔۔ چل کھڑی ہو جا اَب! نہا دھو لے۔ 'وو' آنے ہی والا ہوگا۔ّ۔ پاپا نے کمرے میں گھُسکر کہا اؤر باہر نِکل گیے،"جا کشوٹُو! ایک 'اَدّھا' لیکر آ!"
ہائے رام! میری تو ساںسیں ہی تھم گیی تھی۔ گنیمت رہی کی سپنے میں مینے سچمُچ اَپنا لہںگا نہی اُٹھایا تھا۔ اَپنی چُوچِیو کو دباکر مینے 2-4 لںبی لںبی ساںسیں لی اؤر لہںگے میں ہاتھ ڈال اَپنی کچھی کو چیک کِیا۔ یونِ کے پانی سے وو نیچے سے تر ہو چُکی تھی۔ بچ گیی!
رگڑ رگڑ کر نہاتے ہُئے مینے کھیت کی مِٹّی اَپنے بدن سے اُتاری اؤر نیی نویلی کچھی پہن لی جو ممّی 2-4 دِن پہلے ہی باجار سے لائی تھی،" پتا نہی اَںجُو! تیری اُمر میں تو میں کچھی پہنتی بھی نہی تھی۔ تیری اِتنی جلدی کیسے کھراب ہو جاتی ہے" ممّی نے لاکر دیتے ہُئے کہا تھا۔
مُجھے پُوری اُمّید تھی کِ ریںپھل کا لڑکا میرا سپنا ساکار زرُور کریگا۔ اِسیلِئے مینے سکُول والی سکرٹ ڈالی اؤر بِنا برا کے شرٹ پہنکر باتھرُوم سے باہر آ گیّ۔
"جا وو نیچے بیٹھے تیرا اِںتزار کر رہے ہیں۔۔ کِتنی بار کہا ہے برا ڈال لِیا کر; نِکمّی! یے ہِلتے ہیں تو تُجھے شرم نہی آتی؟" ممّی کی اِس بات کو مینے نزراَںداج کِیا اؤر اَپنا بیگ اُٹھا سیڑھِیوں سے نیچے اُترتی چلی گیّ۔
نیچے جاکر مینے اُس چشمُو کے ساتھ بیٹھی پڑوس کی رِںکی کو دیکھا تو میری سمجھ میں آیا کِ ممّی نے بیٹھا ہے کی وجاے بیٹھے ہیں کیُو بولا تھا
"تُم کِسلِئے آئی ہو؟" مینے رِںکی سے کہا اؤر چشمُو کو اَبھِوادن کے رُوپ میں داںت دِکھا دِئے۔
اُلُّو کی دُوم ہںسا بھی نہی مُجھے دیکھکر،" کُرسی نہیں ہیں کیا؟"
"میں بھی یہیں پڑھ لِیا کرُوںگی۔۔ بھیّا نے کہا ہے کِ اَب روج یہیں آنا ہے۔ پہلے میں بھیّا کے گھر جاتی تھی پڑھنے۔۔ " رِںکی کی سُریلی آواز نے بھی مُجھے ڈںک سا مارا۔ّ۔
"کؤن بھیّا؟" مینے مُںہ چڑھا کر پُوچّھا!
"یے۔۔ ترُن بھیّا! اؤر کؤن؟ اؤر کیا اِنکو سر کہیںگے؟ 4-5 سال ہی تو بڑے ہیں۔۔" رِںکی نے مُسکُراتے ہُئے کہا۔۔
ہائے رام! جو تھوڑی دیر پہلے سپنے میں 'سیّاں' بنکر میری 'پھُولجھڑی' میں جیبھ گھُما رہا تھا; اُسکو کیا اَب بھیّا کہنا پڑیگا؟ نا! مینے نا کہا بھیّا
" میں تو سر ہی کہُوںگی! ٹھیک ہے نا، ترُن سر؟"
بیشرمی سے میں چارپائی پر اُسکے سامنے پسر گیی اؤر ایک ٹاںگ سیدھی کِئے ہُئے دُوسری گھُٹنے سے موڑ اَپنی چھاتی سے لگا لی۔ سیدھی ٹاںگ والی چِکنی جاںگھ تو مُجھے اُپر سے ہی دِکھائی دے رہی تھی۔۔ اُسکو کیا کیا دِکھ رہا ہوگا، آپ کھُد ہی سوچ لو۔
"ٹھیک سے بیٹھ جاّو! اَب پڑھنا شُرُو کریںگے۔۔ " ہرامی نے میری جنّت کی اور دیکھا تک نہی اؤر کھُد ایک ترپھ ہو رِںکی کو بیچ میں بیٹھنے کی جگہ دے دی۔۔ میں تو سُلگتی رہ گیّ۔۔ مینے آلتھی پالتی مار کر اَپنا گھُٹنا جلن کی وجہ سے رِںکی کی کوکھ میں پھںسا دِیا اؤر آگے جھُک کر رانی سُورت بنائے کاپی کی اؤر دیکھنے لگی۔ّ۔
ایک ڈیڑھ گھںٹے میں جانے کِتنے ہی سوال نِکال دِئے اُسنے، میری سمجھ میں تو کھاک بھی نہی آیا۔۔ کبھی اُسکے چیہرے پر مُسکُراہٹ کو کبھی اُسکی پیںٹ کے مردانا اُبھر کو ڈھُوںڈھتی رہی، پر کُچّھ نہی مِلا۔۔
پڑھتے ہُئے اُسکا دھیان ایک دو بار میری چُوچِیو کی اؤر ہُآ تو مُجھے لگا کِ وو 'دُودھ' کا دیوانا ہے۔ مینے جھٹ سے اُسکی سُنتے سُنتے اَپنی شرٹ کا بیچ والا ایک بٹن کھول دِیا۔ میری گڈرائی ہُئی چُوچِیا، جو شرٹ میں گھُٹن مہسُوس کر رہی تھی; راستا مِلتے ہی اُس اؤر سرک کر ساںس لینے کے لِئے باہر جھاںکنے لگی۔۔ دونو میں باہر نِکلنے کی مچی ہوڑ کا پھایڈا اُنکے بیچ کی گہری گھاٹی کو ہو رہا تھا، اؤر وہ بِلکُل سامنے تھی۔
ترُن نے جیسے ہی اِس بار مُجھسے پُوچّھنے کے لِئے میری اؤر دیکھا تو اُسکا چیہرا ایکدم لال ہو گیا۔۔ ہڑبڑتے ہُئے اُسنے کہا،" بس! آج اِتنا ہی۔۔ مُجھے کہیں جانا ہے۔ّ۔ کہتے ہُئے اُسنے نزریں چُراکر ایک بار اؤر میری گوری چُوچِیو کو دیکھا اؤر کھڑا ہو گیا۔ّ۔۔
ہد تو تب ہو گیّ، جب وو میرے سوال کا جواب دِئے بِنا نِکل گیا۔
مینے تو سِرف اِتنا ہی پُوچّھا تھا،" مزا نہی آیا کیا، سر؟"
دوستوں میںیانی آپکا دوست راج شرما ایک اؤر مست کمسِن کلی کی داستان لیکر ہاجِر ہُوں
ہائی، میں اَںجلِ۔ّ۔! کھیر چھچوڑو! نام میں کیا رکھا ہے؟ چھِچھورے لڑکوں کو ویسے بھی نام سے زیادا 'کام' سے متلب رہتا ہے۔ اِسیلِئے سِرف 'کام' کی ہی باتیں کرُوںگی۔
میں آج 18 کی ہو گیی ہُوں۔ کُچّھ برس پہلے تک میں بِلکُل 'پھلیٹ' تھی۔۔ آگے سے بھی۔۔ اؤر پِچھے سے بھی۔ پر سکُول بس میں آتے جاتے; لڑکوں کے کںدھوں کی رگڑ کھا کھا کر مُجھے پتا ہی نہی چلا کی کب میرے کُلہوں اؤر چھاتِیو پر چربی چڑھ گیّ۔۔ بالی اُمر میں ہی میرے نِتںب بیچ سے ایک پھاںک نِکالے ہُئے گول تربُوج کی ترہ اُبھر گیے۔ میری چھاتی پر بھگوان کے دِئے دو اَنمول 'پھل' بھی اَب 'اَمرُودوں' سے بڑھکر موٹی موٹی 'سیبوں' جیسے ہو گیے تھے۔ میں کیِ بار باتھرُوم میں نںگی ہوکر اَچرج سے اُنہے دیکھا کرتی تھی۔۔ چھچھُو کر۔۔ دبا کر۔۔ مسل کر۔ مُجھے ایسا کرتے ہُئے اَجیب سا آنںد آتا ۔۔ 'وہاں بھی۔۔ اؤر نیچے بھی۔
میرے گورے چِٹ بدن پر اُس چھہوٹی سی کھاس جگہ کو چھچوڑکر کہیں بالوں کا نامو-نِشان تک نہی تھا۔۔ ہُلکے ہُلکے میری بگل میں بھی تھے۔ اُسکے اَلاوا گردن سے لیکر پیروں تک میں ایکدُوم چِکنی تھی۔ کلاس کے لڑکوں کو للچائی نزروں سے اَپنی چھاتی پر جھُول رہے 'سیبوں' کو گھُورتے دیکھ میری جاںگھوں کے بیچ چھِپِ بیٹھی ہُلکے ہُلکے بالوں والی، مگر چِکناہٹ سے بھری تِتلی کے پںکھ پھڑپھڑنے لگتے اؤر چُوچِیو پر گُلابی رںگت کے 'اَنار دانے' تن کر کھڑے ہو جاتے۔ پر مُجھے کوئی پھرک نہی پڑا۔ ہاں، کبھی کبھار شرم آ جاتی تھی۔ یے بھی نہی آتی اَگر ممّی نے نہی بولا ہوتا،"اَب تُو بڑی ہو گیی ہے اَںجُو۔۔ برا ڈالنی شُرُو کر دے اؤر چُنّی بھی لِیا کر!"
سچ کہُوں تو مُجھے اَپنے اُنمُکت اُرجوں کو کِسی مریادا میں باںدھ کر رکھنا کبھی نہی سُہایا اؤر نا ہی اُنکو چُنّی سے پردے میں رکھنا۔ مؤکا مِلتے ہی میں برا کو جانبُوجھ کر باتھرُوم کی کھُوںٹِ پر ہی ٹاںگ جاتی اؤر کلاس میں منچلے لڑکوں کو اَپنے اِرد گِرد مںڈراتے دیکھ مزے لیتی۔۔ میں اَکسر جان بُوجھ اَپنے ہاتھ اُپر اُٹھا اَںگڑائی سی لیتی اؤر میری چُوچِیا تن کر جھُولنے سی لگتی۔ اُس وقت میرے سامنے کھڑے لڑکوں کی ہالت کھراب ہو جاتی۔ّ۔ کُچّھ تو اَپنے ہوںٹو پر ایسے جیبھ پھیرنے لگتے مانو مؤکا مِلتے ہی مُجھے نوچ ڈالیںگے۔ کلاس کی سب لڑکِیاں مُجھسے جلنے لگی۔۔ ہالاںکِ 'وو' سب اُنکے پاس بھی تھا۔۔ پر میرے جیسا نہی۔۔
میں پڑھائی میں بِلکُل بھی اَچّھِ نہی تھی پر سبھی میل-ٹیچرس کا 'پُورا پیار' مُجھے مِلتا تھا۔ یے اُنکا پیار ہی تو تھا کِ ہوم-ورک نا کرکے لے جانے پر بھی وو مُسکُرکر بِنا کُچّھ کہے چُپچاپ کاپی بںد کرکے مُجھے پکڑا دیتے۔۔ باکی سب کی پِٹائی ہوتی۔ پر ہاں، وو میرے پڑھائی میں دھیان نا دینے کا ہرجانا وسُول کرنا کبھی نہی بھُولتے تھے۔ جِس کِسی کا بھی کھالی پیرِیڈ نِکل آتا; کِسی نا کِسی بہانے سے مُجھے سٹیپھرُم میں بُلا ہی لیتے۔ میرے ہاتھوں کو اَپنے ہاتھ میں لیکر مسلتے ہُئے مُجھے سمجھاتے رہتے۔ کمر سے چِپکا ہُآ اُنکا دُوسرا ہاتھ دھیرے دھیرے پھِسلتا ہُآ میرے نِتںبوں پر آ ٹِکتا۔ مُجھے پڑھائی پر 'اؤر زیادا' دھیان دینے کو کہتے ہُئے وو میرے نِتںبوں پر ہلکی ہلکی چپت لگتے ہُئے میرے نِتںبوں کی تھِرکن کا مزا لُوٹ'تے رہتے۔۔ مُجھے پڑھائی کے فایڈے گِنواتے ہُئے اَکسر وو 'بھاوُک' ہو جاتے تھے، اؤر چپت لگانا بھُول نِتںبوں پر ہی ہاتھ جما لیتے۔ کبھی کبھی تو اُنکی اُںگلِیاں سکرٹ کے اُپر سے ہی میری 'درار' کی گہرائی ماپنے کی کوشِش کرنے لگتی۔ّ۔
اُنکا دھیان ہر وقت اُنکی تھپکیّوں کے کارن لگاتار تھِرکتِ رہتی میری چُوچِیو پر ہی ہوتا تھا۔۔ پر کِسی نے کبھی 'اُنن' پر جھپٹّا نہی مارا۔ شاید 'وو' یے سوچتے ہوںگے کِ کہیں میں بِدک نا جاُّوں۔۔ پر میں اُنکو کبھی چاہکر بھی نہی بتا پائی کی مُجھے ایسا کرواتے ہُئے میٹھی-میٹھی کھُجلی ہوتی ہے اؤر بہُت آنںد آتا ہے۔ّ۔
ہاں! ایک بات میں کبھی نہی بھُول پاُّنگِ۔۔ میرے ہِسٹری والے سر کا ہاتھ ایسے ہی سمجھاتے ہُئے ایک دِن کمر سے نہی، میرے گھُٹنو سے چلنا شُرُو ہُآ۔۔ اؤر دھیرے دھیرے میری سکرٹ کے اَںدر گھُس گیا۔ اَپنی کیلے کے تنے جیسی لںبی گوری اؤر چِکنی جاںگھوں پر اُنکے 'کاںپتے' ہُئے ہاتھ کو مہسُوس کرکے میں مچل اُٹھی تھی۔ّ۔ کھُشی کے مارے مینے آںکھیں بںد کرکے اَپنی جاںگھیں کھول دی اؤر اُنکے ہاتھ کو میری جاںگھوں کے بیچ میں اُپر چڑھتا ہُآ مہسُوس کرنے لگی۔۔ اَچانک میری پھُول جیسی نازُک یونِ سے پانی سا ٹپکنے لگا۔۔
اَچانک اُنہونے میری جاںگھوں میں بُری ترہ پھںسی ہُئی 'نِکّر' کے اَںدر اُںگلی گھُسا دی۔۔ پر ہڑبڑی اؤر جلدبازی میں غلتی سے اُنکی اُںگلی سیدھی میری چِکنی ہوکر ٹپک رہی یونِ کی موٹی موٹی پھاںکوں کے بیچ گھُس گیّ۔۔ میں درد سے تِلمِلا اُٹھی۔۔ اَچانک ہُئے اِس پرہار کو میں سہن نہی کر پائی۔ چھٹپٹاتے ہُئے مینے اَپنے آپکو اُنسے چھُڑایا اؤر دیوار کی ترپھ مُںہ پھیر کر کھڑی ہو گیّ۔ّ۔ میری آںکھیں دبدبا گیی تھی۔۔
میں اِس ساری پرکرِیا کے 'پیار سے' پھِر شُرُو ہونے کا اِںتجار کر ہی رہی تھی کِ 'وو' ماسٹر میرے آگے ہاتھ جوڑکر کھڑا ہو گیا،"پلیز اَںجلِ۔۔ مُجھسے غلتی ہو گیّ۔۔ میں بہک گیا تھا۔ّ۔ کِسی سے کُچّھ مت کہنا۔۔ میری نؤکری کا سوال ہے۔ّ۔!" اِس'سے پہلے میں کُچّھ بولنے کی ہِمّت جُٹاتی; بِنا متلب کی بکبک کرتا ہُآ وو سٹیپھرُم سے بھاگ گیا۔۔ مُجھے تڑپتِ چھچوڑکر۔۔
نِگوڈی 'اُںگلی' نے میرے یؤون کو اِس کدر بھڑکایا کی میں اَپنے جلوّں سے لڑکوں کے دِلوں میں آگ لگانا بھُول اَپنی ننہی سی پھُدکٹی یونِ کی پیاس بُجھانے کی جُگت میں رہنے لگی۔ اِسکے لِئے مینے اَپنے اَںگ-پردرشن اَبھِیان کو اؤر تیج کر دِیا۔ اَںجان سی بنکر، کھُجلی کرنے کے بہانے میں بیںچ پر بیٹھی ہُئی سکرٹ میں ہاتھ ڈال اُسکو جاںگھوں تک اُپر کھِسکا لیتی اؤر کلاس میں لڑکوں کی سیٹِیاں بجنے لگتی۔ اَب پُورے دِن لڑکوں کی باتوں کا کیندر میں ہی رہنے لگی۔ آج اَہساس ہوتا ہے کِ یونِ میں ایک بار اؤر مردانی اُںگلی کروانے کے چکّر میں میں کِتنی بدنام ہو گیی تھی۔
کھیر; میرا 'کام' جلد ہی بن جاتا اَگر 'وو' (جو کوئی بھی تھا) میرے بیگ میں نِہایت ہی اَشلیل لیٹر ڈالنے سے پہلے مُجھے بتا دیتا۔ کاش لیٹر میرے کشوٹُو بھیّا سے پہلے مُجھے مِل جاتا! 'گدھے' نے لیٹر سیدھا میرے شرابی پاپا کو پکڑا دِیا اؤر رات کو نشے میں دھُتت ہوکر پاپا مُجھے اَپنے سامنے کھڑی کرکے لیٹر پڑھنے لگے:
" ہائی جانے-من!
کیا کھاتی ہو یار؟ اِتنی مست ہوتی جا رہی ہو کِ سارے لڑکوں کو اَپنا دیوانا بنا کے رکھ دِیا۔ تُمہاری 'پپیتے' جیسے چُونچِیو نے ہمیں پہلے ہی پاگل بنا رکھا تھا، اَب اَپنی گؤری چِکنی جاںگھیں دِکھا دِکھا کر کیا ہماری جان لینے کا اِرادا ہے؟ ایسے ہی چلتا رہا تو تُم اَپنے ساتھ 'اِس' سال ایگزیم میں سب لڑکوں کو بھی لے ڈُبگی۔۔
پر مُجھے تُمسے کوئی گِلا نہی ہے۔ تُمہاری مستانی چُونچِیا دیکھکر میں دھنے ہو جاتا تھا; اَب نںگی چِکنی جاںگھیں دیکھکر تو جیسے اَمر ہی ہو گیا ہُوں۔ پھِر پاس یا پھیل ہونے کی پرواہ کِسے ہے اَگر روج تُمہارے اَںگوں کے درشن ہوتے رہیں۔ ایک رِکویسٹ ہے، پلیز مان لینا! سکرٹ کو تھوڑا سا اؤر اُپر کر دِیا کرو تاکِ میں تُمہاری گیلی 'کcچِ' کا رںگ دیکھ سکُوں۔ سکُول کے باتھرُوم میں جاکر تُمہاری کلپنا کرتے ہُئے اَپنے لںڈ کو ہِلاتا ہُوں تو بار بار یہی سوال مںن میں اُبھرتا رہتا ہے کِ 'کچّچی' کا رںگ کیا ہوگا۔۔ اِس وجہ سے میرے لںڈ کا رس نِکلنے میں دیری ہو جاتی ہے اؤر کلاس میں ٹیچرس کی سُن'نِ پڑتی ہے۔ّ۔ پلیز، یے بات آگے سے یاد رکھنا!
تُمہاری کسم جانے-من، اَب تو میرے سپنو میں بھی پرِیںکا چوپڑا کی جگہ نںگی ہوکر تُم ہی آنے لگی ہو۔ 'وو' تو اَب مُجھے تُمہارے سامنے کُچّھ بھی نہی لگتی۔ سونے سے پہلے 2 بار خیالوں میں تُمہے پُوری نںگی کرکے چود'تے ہُئے اَپنے لںڈ کا رس نِکلتا ہُوں، پھِر بھی سُبہ میرا 'کچّچھا' گیلا مِلتا ہے۔ پھِر سُبہ بِستیر سے اُٹھنے سے پہلے تُمہے ایک بار زرُور یاد کرتا ہُوں۔
مینے سُنا ہے کِ لڑکِیوں میں چُدائی کی بھُوکھ لڑکوں سے بھی زیادا ہوتی ہے۔ تُمہارے اَںدر بھی ہوگی نا؟ ویسے تو تُمہاری چُدائی کرنے کے لِئے سبھی اَپنے لںڈ کو تیل لگائے پھِرتے ہیں; پر تُمہاری کسم جانیمن، میں تُمہے سبسے زیادا پیار کرتا ہُوں، اَسلی والا۔ کِسی اؤر کے بہکاوے میں مت آنا، زیاداتر لڑکے چودتے ہُئے پاگل ہو جاتے ہیں۔ وو تُمہاری کُںواری چُوت کو ایکدُوم پھاڑ ڈالیںگے۔ پر میں سب کُچّھ 'پیار سے کرُوںگا۔۔ تُمہاری کسم۔ پہلے اُںگلی سے تُمہاری چُوت کو تھوڑی سی کھولُوںگا اؤر چاٹ چاٹ کر اَںدر باہر سے پُوری ترہ گیلی کر دُوںگا۔۔ پھِر دھیرے دھیرے لںڈ اَںدر کرنے کی کوشِش کرُوںگا، تُمنے کھُشی کھُشی لے لِیا تو ٹھیک، ورنا چھچوڑ دُوںگا۔۔ تُمہاری کسم جانیمن۔
اَگر تُمنے اَپنی چھُدائی کروانے کا مُوڈ بنا لِیا ہو تو کل اَپنا لال رُمال لیکر آنا اؤر اُسکو رِسیس میں اَپنے بیںچ پر چھچوڑ دینا۔ پھِر میں بتاُّنگا کِ کب کہاں اؤر کیسے مِلنا ہے!
پلیز جان، ایک بار سیوا کا مؤکا زرُور دینا۔ تُم ہمیشا یاد رکھوگی اؤر روج روج چُدائی کروانے کی سوچوگی، میرا داوا ہے۔
تُمہارا آشِق!
لیٹر میں شُدّھ 'کامرس' کی باتیں پڑھتے پڑھتے پاپا کا نشا کب کاپھُور ہو گیا، شاید اُنہے بھی اَہساس نہی ہُآ۔ سِرف اِسیلِئے شاید میں اُس رات کُںواری رہ گیّ۔ ورنا وو میرے ساتھ بھی ویسا ہی کرتے جیسا اُنہونے بڑی دیدی 'نِمّو' کے ساتھ کُچّھ سال پہلے کِیا تھا۔
میں تو کھیر اُس وقت چھہوٹی سی تھی۔ دیدی نے ہی بتایا تھا۔ سُنی سُنائی بتا رہی ہُوں۔ وِسواس ہو تو ٹھیک ورنا میرا کیا چاٹ لوگے؟
پاپا نِمّو کو بالوں سے پکڑکر گھسیٹ'تے ہُئے اُپر لائے تھے۔ شراب پینے کے باد پاپا سے اُلجھنے کی ہِمّت گھر میں کوئی نہی کرتا۔ ممّی کھڑی کھڑی تماشا دیکھتی رہی۔ بال پکڑ کر 5-7 کرارے جھاپڑ نِمّوں کو مارے اؤر اُسکی گردن کو دبوچ لِیا۔ پھِر جانے اُنکے مںن میں کیا خیال آیا; بولے،" سزا بھی ویسی ہی ہونی چاہِئے جیسی غلتی ہو!" دیدی کے کمیز کو دونو ہاتھوں سے گلے سے پکڑا اؤر ایک ہی جھٹکے میں تار تار کر ڈالا; کمیز کو بھی اؤر دیدی کی 'اِزّت' کو بھی۔ دیدی کے میری ترہ مستایے ہُئے گول گول کبُوتر جو تھوڑے بہُت اُسکے سمیز نے چھُپا رکھے تھے; اَگلے جھٹکے کے باد وو بھی چھُپے نہی رہے۔ دیدی بتاتی ہیں کِ پاپا کے سامنے 'اُنکو' پھڑکتے دیکھ اُنہے کھُوب شرم آئی تھی۔ اُنہونے اَپنے ہاتھوں سے 'اُنہے' چھِپانے کی کوشِش کی تو پاپا نے 'ٹیچرس' کی ترہ اُسکو ہاتھ اُپر کرنے کا آدیش دے دِیا۔۔ 'ٹیچرس' کی بات پر ایک اؤر بات یاد آ گیّ، پر وو باد میں سُناُّنگِ۔ّ۔۔
ہاں تو میں بتا رہی تھی۔۔ ہاں۔۔ تو دیدی کے دونو سںترے ہاتھ اُپر کرتے ہی اؤر بھی تن کر کھڑے ہو گیے۔ جیسے اُنکو شرم نہی گرو ہو رہا ہو۔ دانو کی نوک بھی پاپا کی اؤر ہی گھُور رہی تھی۔ اَب بھلا میرے پاپا یے سب کیسے سہن کرتے؟ پاپا کے سامنے تو آج تک کوئی بھی نہی اَکڑا تھا۔ پھِر وو کیسے اَکڑ گیے؟ پاپا نے دونو چُوچِیوں کے دانوں کو کسکر پکڑا اؤر مسل دِیا۔ دیدی بتاتی ہیں کِ اُس وقت اُنکی یونِ نے بھی رس چھچوڑ دِیا تھا۔ پر کمبخت 'کبُوتروں' پر اِسکا کوئی اَسر نہی ہُآ۔ وو تو اؤر زیادا اَکڑ گیے۔
پھِر تو دیدی کی کھیر ہی نہی تھی۔ گُسّے کے مارے اُنہونے دیدی کی سلوار کا ناڈا پکڑا اؤر کھیںچ لِیا۔ دیدی نے ہاتھ نیچے کرکے سلوار سںبھالنے کی کوشِش کی تو ایک ساتھ کیِ جھاپڑ پڑے۔ بیچاری دیدی کیا کرتی؟ اُنکے ہاتھ اُپر ہو گیے اؤر سلوار نیچے۔ گُسّے گُسّے میں ہی اُنہونے اُنکی 'کچھِ' بھی نیچے کھیںچ دی اؤر گُرّاتے ہُئے بولے،" کُتِیا! مُرگی بن جا اُدھر مُںہ کرکے"۔۔ اؤر دیدی بن گیی مُرگی۔
ہائے! دیدی کو کِتنی شرم آئی ہوگی، سوچ کر دیکھو! پاپا دیدی کے پِچھے چارپائی پر بیٹھ گیے تھے۔ دیدی جاںگھوں اؤر گھُٹنو تک نِکلی ہُئی سلوار کے بیچ میں سے سب کُچّھ دیکھ رہی تھی۔ پاپا اُسکے گول مٹول چُوتدوں کے بیچ اُنکے دونو چھیدو کو گھُور رہے تھے۔ دیدی کی یونِ کی پھاںکیں ڈر کے مارے کبھی کھُل رہی تھی، کبھی بںد ہو رہی تھی۔ پاپا نے گُسّے میں اُسکے نِتںبوں کو اَپنے ہاتھوں میں پکڑا اؤر اُنہے بیچ سے چیرنے کی کوشِش کرنے لگے۔ شُکرا ہے دیدی کے چُوتڑ سُڈؤل تھے، پاپا سپھل نہی ہو پائے!
"کِسی سے مروا بھی لی ہے کیا کُتِیا؟" پاپا نے تھک ہار کر اُنہے چھچوڑتے ہُئے کہا تھا۔
دیدی نے بتایا کِ منا کرنے کے باوجُود اُنکو وِسواس نہی ہُآ۔ ممّی سے مومبتّی لانے کو بولا۔ ڈری سہمی درواجے پر کھڑی سب کُچّھ دیکھ رہی ممّی چُپ چاپ رسوئی میں گیی اؤر اُنکو مومبتّی لاکر دے دی۔
جیسا 'اُس' لڑکے نے کھت میں لِکھا تھا، پاپا بڑے نِردیی نِکلے۔ دیدی نے بتایا کی اُنکی یونِ کا چھید موٹی مومبتّی کی پتلی نوک سے ڈھُوںڈھ کر ایک ہی جھٹکے میں اَںدر گھُسا دی۔ دیدی کا سِر سیدھا زمین سے جا ٹکرایا تھا اؤر پاپا کے ہاتھ سے چھچھُوٹنے پر بھی مومبتّی یونِ میں ہی پھںسی رہ گیی تھی۔ پاپا نے مومبتّی نِکالی تو وو کھُون سے لتھپتھ تھی۔ تب جاکر پاپا کو یکین ہُآ کِ اُنکی بیٹی کُںواری ہی ہے (تھی)۔ ایسا ہے پاپا کا گُسّا!
دیدی نے بتایا کِ اُس دِن اؤر اُس 'مومبتّی' کو وو کبھی نہی بھُول پائی۔ مومبتّی کو تو اُسنے 'نِشانی' کے تؤر پر اَپنے پاس ہی رکھ لِیا۔۔ وو بتاتی ہیں کِ اُسکے باد شادی تک 'وو' مومبتّی ہی بھری جوانی میں اُنکا سہارا بنی۔ جیسے اَںدھے کو لکڑی کا سہارا ہوتا ہے، ویسے ہی دیدی کو بھی مومبتّی کا سہارا تھا شاید
کھیر، بھگوان کا شُکر ہے مُجھے اُنہونے یے کہکر ہی بکھس دِیا،" کُتِیا! مُجھے وِسواس تھا کِ تُو بھی میری اؤلاد نہی ہے۔ تیری ممّی کی ترہ تُو بھی رںڈی ہے رںڈی! آج کے باد تُو سکُول نہی جاّیگی" کہکر وو اُپر چلے گیے۔۔ تھیںک گاڈ! میں بچ گیّ۔ دیدی کی ترہ میرا کُںواراپن دیکھنے کے چکّر میں اُنہونے میری سیل نہی توڑی۔
لگے ہاتھوں 'دیدی' کی وو چھہوٹی سی غلتی بھی سُن لو جِسکی وجہ سے پاپا نے اُنہے اِتنی 'سخت' سزا دی۔ّ۔
دراَسل گلی کے 'کلُّو' سے بڑے دینو سے دیدی کی گُٹرگُو چل رہی تھی۔۔ بس آںکھوں اؤر اِشاروں میں ہی۔ دھیرے دھیرے دونو ایک دُوسرے کو پریمپاتر لِکھ لِکھ کر اُنکا 'جہاز' بنا بنا کر ایک دُوسرے کی چھتو پر پھیںکنے لگے۔ دیدی بتاتی ہیں کِ کیِ بار 'کلُّو' نے چُوت اؤر لںڈ سے بھرے پریمپاتر ہماری چھت پر اُڑائے اؤر اَپنے پاس بُلانے کی پرارتھنا کی۔ پر دیدی بیبس تھی۔ کارن یے تھا کی شام 8:00 بجتے ہی ہمارے 'سرِیوں' والے درواجے پر تالا لگ جاتا تھا اؤر چابی پاپا کے پاس ہی رہتی تھی۔ پھِر نا کوئی اَںدر آ پتا تھا اؤر نا کوئی باہر جا پتا تھا۔ آپ کھُد ہی سوچِئے، دیدی بُلاتی بھی تو بُلاتی کیسے؟
پر ایک دِن کلُّو تیش میں آکر سنّی دیاول بن گیا۔ 'جہاز' میں لِکھ بھیجا کِ آج رات اَگر 12:00 بجے درواجا نہی کھُلا تو وو سرِیا اُکھاڑ دیگا۔ دیدی بتاتی ہیں کِ ایک دِن پہلے ہی اُنہونے چھت سے اُسکو اَپنی چُوت، چُوچِیاں اؤر چُوتڑ دِکھائے تھے، اِسیلِئے وہ پاگلا گیا تھا، پاگل!
دیدی کو 'پیار' کے جوش اؤر جزبے کی پرکھ تھی۔ اُنکو وِسواس تھا کِ 'کلُّو' نے کہ دِیا تو کہ دِیا۔ وو زرُور آایگا۔۔ اؤر آیا بھی۔ دیدی 12 بجنے سے پہلے ہی کلُّو کو مناکر درواجے کے 'سرِے' بچانے نیچے پہُںچ چُکی تھی۔۔ ممّی اؤر پاپا کی چارپائی کے پاس ڈالی اَپنی چارپائی سے اُٹھکر!
دیدی کے لاکھ سمجھنے کے باد وو ایک ہی شرت پر مانا "چُوس چُوس کر نِکلوانا پڑیگا!"
دیدی کھُش ہوکر مان گیی اؤر جھٹ سے گھُٹنے ٹکے کر نیچے بیٹھ گیّ۔ دیدی بتاتی ہیں کِ کلُّو نے اَپنا 'لںڈ' کھڑا کِیا اؤر سرِیوں کے بیچ سے دیدی کو پکڑا دِیا۔۔ دیدی بتاتی ہیں کِ اُسکو 'وو' گرم گرم اؤر چُوسنے میں بڑا کھٹّا میٹھا لگ رہا تھا۔ چُوسنے چُوسنے کے چکّر میں دونو کی آںکھ بںد ہو گیی اؤر تبھی کھُلی جب پاپا نے پِچھے سے آکر دیدی کو پِچھے کھیںچ لںڈ مُسکِل سے باہر نِکلوایا۔
پاپا کو دیکھتے ہی گھر کے سرِیا تک اُکھاڑ دینے کا داوا کرنے والا 'کلُّو دیاول' تو پتا ہی نہی چلا کہاں گایب ہُآ۔ بیچاری دیدی کو اِتنی بڑی سزا اَکیلے سہن کرنی پڑی۔ سالا کلُّو بھی پکڑا جاتا اؤر اُسکے چچھید میں بھی مومبتّی گھُستی تو اُسکو پتا تو چلتا مومبتّی اَںدر ڈلوانے میں کِتنا درد ہوتا ہے۔
کھیر، ہر روز کی ترہ سکُول کے لِئے تیّار ہونے کا ٹائیم ہوتے ہی میری کسی ہُئی چُوچِیا پھڑکنے لگی; 'شِکار' کی تلاش کا ٹائیم ہوتے ہی اُنمیں اَجیب سی گُدگُدی ہونے لگ جاتی تھی۔ مینے یہی سوچا تھا کِ روز کی ترہ رات کی وو بات تو نشے کے ساتھ ہی پاپا کے سِر سے اُتر گیی ہوگی۔ پر ہائے ری میری کِسمت; اِس بار ایسا نہی ہُآ،" کِسلِئے اِتنی پھُدک رہی ہے؟ چل میرے ساتھ کھیت میں!"
"پر پاپا! میرے ایگزیم سِر پر ہیں!" بیشرم سی بنتے ہُئے مینے رات والی بات بھُول کر اُنسے بہس کی۔
پاپا نے مُجھے اُپر سے نیچے تک گھُورتے ہُئے کہا،" یے لے اُٹھا ٹوکری! ہو گیا تیرا سکُول بس! تیری ہازِری لگ جاّیگی سکُول میں! ریںپھل کے لڑکے سے بات کر لی ہے۔ آج سے کالیج سے آنے کے باد تُجھے یہیں پڑھا جایا کریگا! تیّاری ہو جائے تو پیپر دے دینا۔ اَگلے سال تُجھے گرل'س سکُول میں ڈالُوںگا۔ وہاں دِکھانا تُو کچھی کا رںگ!" آخِری بات کہتے ہُئے پاپا نے میری اؤر دیکھتے ہُئے زمین پر تھُوک دِیا۔ میری کچھی کی بات کرنے سے شاید اُنکے مُںہ میں پانی آ گیا ہوگا۔
کام کرنے کی میری آدت تو تھی نہی۔ پُرانا سا لہنگا پہنے کھیت سے لؤٹی تو بدن کی پوری پوری دُکھ رہی تھی۔ دِل ہو رہا تھا جیسے کوئی مُجھے اَپنے پاس لِٹاکر آٹے کی ترہ گُوںتھ ڈالے۔ میری اُپر جانے تک کی ہِمّت نہی ہُئی اؤر نیچے کے کمرے میں چارپائی کو سیدھا کرکے اُس پر پسری اؤر سو گیّ۔
---------------------------------------------------------------------------
ریںپھل کا لڑکے نے گھر میں گھُس کر آواز دی۔ مُجھے پتا تھا کِ گھر میں کوئی نہی ہے۔ پھِر بھی میں کُچّھ نا بولی۔ در-اَسل پڑھنے کا میرا مںن تھا ہی نہی، اِسیلِئے سونے کا بہانا کِئے پڑی رہی۔ میرے پاس آتے ہی وو پھِر بولا،"اَںجلِ!"
اُسنے 2-3 بار مُجھکو آواز دی۔ پر مُجھے نہی اُٹھنا تھا سو نہی اُٹھی۔ ہائے ऱااَم! وو تو اَگلے ہی پل لڑکوں والی اؤکات پر آ گیا۔ سیدھا نِتںبوں پر ہاتھ لگاکر ہِلایا،"اَںجلِ۔۔ اُٹھو نا! پڑھنا نہی ہے کیا؟"
اِس ہرکت نے تو دُوسری ہی پڑھائی کرنے کی للک مُجھمیں جگا دی۔ اُسکے ہاتھ کا اَہساس پاتے ہی میرے نِتںب سِکُڈ سے گیے۔ پُورا بدن اُسکے چھُونے سے تھِرک اُٹھا تھا۔ اُسکو میرے جاگ جانے کی غلتپھہمی نا ہو جائے اِسیلِئے نیںد میں ہی بڑبڑانے کا ناٹک کرتی ہُئی میں اُلٹی ہو گیی; اَپنے ماںسل نِتںبوں کی کساوٹ سے اُسکو للچانے کے لِئے۔
سارا گاںو اُس چاسمِش کو شریپھ کہتا تھا، پر وو تو بڑا ہی ہرامی نِکلا۔ ایک بار باہر نزر مار کر آیا اؤر میرے نِتںبوں سے تھوڑا نیچے مُجھسے سٹکار چارپائی پر ہی بیٹھ گیا۔ میرا مُںہ دُوسری ترپھ تھا پر مُجھے یکین تھا کِ وو چوری چوری میرے بدن کی کامُک بناوٹ کا ہی لُتف اُٹھا رہا ہوگا!
"اَںجلِ!" اِس بار تھوڑی تیج بولتے ہُئے اُسنے میرے گھُٹنوں تک کے لہںگے سے نیچے میری نںگی گُدج پِںڈلِیوں پر ہاتھ رکھکر مُجھے ہِلایا اؤر سرکتے ہُئے اَپنا ہاتھ میرے گھُٹنو تک لے گیا۔ اَب اُسکا ہاتھ نیچے اؤر لہںگا اُپر تھا۔
مُجھسے اَب سہن کرنا مُشکِل ہو رہا تھا۔ پر شِکار ہاتھ سے نِکالنے کا ڈر تھا۔ میں چُپّی سادھے رہی اؤر اُسکو جلد سے جلد اَپنے پِںجرے میں لانے کے لِئے دُوسری ٹاںگ گھُٹنو سے موڈی اؤر اَپنے پیٹ سے چِپکا لی۔ اِسکے ساتھ ہی لہںگا اُپر سرکتا گیا اؤر میری ایک جاںگھ کافی اُپر تک نںگی ہو گیّ۔ مینے دیکھا نہی، پر میری کچھی تک آ رہی باہر کی ٹھںڈی ہوا سے مُجھے لگ رہا تھا کِ اُسکو میری کچھی کا رںگ دِکھنے لگا ہے۔
"آ۔ّآنّنجلِ" اِس بار اُسکی آواز میں کںپکپاہٹ سی تھی۔۔ سِسک اُٹھا تھا وو شاید! ایک بار کھڑا ہُآ اؤر پھِر بیٹھ گیا۔۔ شاید میرا لہںگا اُسکے نیچے پھںسا ہُآ ہوگا۔ واپس بیٹھتے ہی اُسنے لہںگے کو اُپر پلٹ کر میری کمر پر ڈال دِیا۔۔
اُسکا کیا ہال ہُآ ہوگا یے تو پتا نہی۔ پر میری یونِ میں بُلبُلے سے اُٹھنے شُرُو ہو چُکے تھے۔ جب سہن کرنے کی ہد پار ہو گیی تو میں نیںد میں ہی بنی ہُئی اَپنا ہاتھ مُوڈی ہُئی ٹاںگ کے نیچے سے لے جاکر اَپنی کچھی میں اُںگلِیاں گھُسا 'وہاں' کھُجلی کرنے کرنے کے بہانے اُسکو کُریدنے لگی۔ میرا یے ہال تھا تو اُسکا کیا ہو رہا ہوگا؟ سُلگ گیا ہوگا نا؟
مینے ہاتھ واپس کھیںچا تو اَہساس ہُآ جیسے میری یونِ کی ایک پھاںک کچھی سے باہر ہی رہ گیی ہے۔ اَگلے ہی پل اُسکی ایک ہرکت سے میں بؤکھلا اُٹھی۔ اُسنے جھٹ سے لہںگا نیچے سرکا دِیا۔ کمبخت نے میری ساری میہنت کو مِٹّی میں مِلا دِیا۔
پر میرا سوچنا غلت سابِت ہُآ۔ وو تو میری اُمّید سے بھی زیادا شاتِر نِکلا۔ ایک آخِری بار میرا نام پُکارتے ہُئے اُسنے میری نیںد کو ماپنے کی کوشِش کی اؤر اَپنا ہاتھ لہںگے کے نیچے سرکتے ہُئے میرے نِتںبوں پر لے گیا۔ّ۔۔
کچھی کے اُپر تھِرکتِ ہُئی اُسکی اُںگلِیوں نے تو میری جان ہی نِکل دی۔ کسے ہُئے میرے چِکنے چُوتدوں پر دھیرے دھیرے مںڈراتا ہُآ اُسکا ہاتھ کبھی 'اِسکو' کبھی اُسکو دبا کر دیکھتا رہا۔ میری چُوچِیاں چارپائی میں دبکر چھیٹپاٹینے لگی تھی۔ مینے بڑی مُشکِل سے کھُد پر کابُو پایا ہُآ تھا۔۔
اَچانک اُسنے میرے لہںگے کو واپس اُپر اُٹھایا اؤر دھیرے سے اَپنی ایک اُںگلی کچھی میں گھُسا دی۔۔ دھیرے دھیرے وا اُںگلی سرکتِ ہُئی پہلے نِتںبوں کی درار میں گھُومی اؤر پھِر نیچے آنے لگی۔۔ مینے دم سادھ رکھا تھا۔۔ پر جیسے ہی اُںگلی میری 'پھُولکُنورِ' کی پھاںکوں کے بیچ آئی; میں اُچّھل پڑی۔۔ اؤر اُسی پل اُسکا ہاتھ وہاں سے ہٹا اؤر چارپائی کا بوجھ کم ہو گیا۔۔
میری چھہوٹی سی مچھلِ تڑپ اُٹھی۔ مُجھے لگا، مؤکا ہاتھ سے گیا۔۔ پر اِتنی آسانی سے میں بھی ہار مان'نے والوں میں سے نہی ہُوں۔ّ۔ اَپنی سِسکِیوں کو نیںد کی بڑبڑاہٹ میں بدل کر میں سیدھی ہو گیی اؤر آںکھیں بںد کِئے ہُئے ہی مینے اَپنی جاںگھیں گھُٹنوں سے پُوری ترہ موڑ کر ایک دُوسری سے وِپریت دِشا میں پھیلا دی۔ اَب لہںگا میرے گھُٹنو سے اُپر تھا اؤر مُجھے وِسواس تھا کِ میری بھیگی ہُئی کچھی کے اَںدر بیٹھی 'چھمّک چھلّو' ٹھیک اُسکے سامنے ہوگی۔
تھوڑی دیر اؤر یُوںہی بڑبڑاتے ہُئے میں چُپ ہو کر گہری نیںد میں ہونے کا ناٹک کرنے لگی۔ اَچانک مُجھے کمرے کی چِتکنِ بںد ہونے کی آواز آئی۔ اَگلے ہی پل وہ واپس چارپائی پر ہی آکر بیٹھ گیا۔۔ دھیرے دھیرے پھِر سے ریںگتا ہُآ اُسکا ہاتھ وہیں پہُںچ گیا۔ میری یونِ کے اُپر سے اُسنے کچھی کو سرکّر ایک ترپھ کر دِیا۔ مینے ہُلکی سی آںکھیں کھولکر دیکھا۔ اُسنے چسمیں نہی پہنے ہُئے تھے۔ شاید اُتار کر ایک ترپھ رکھ دِئے ہوںگے۔ وہ آںکھیں پھیڈ ہُئے میری پھڑکٹی ہُئی یونِ کو ہی دیکھ رہا تھا۔ اُسکے چیہرے پر اُتّیجنا کے بھاو اَلگ ہی نزر آ رہے تھے۔۔
اَچانک اُسنے اَپنا چیہرا اُٹھایا تو مینے اَپنی آںکھیں پُوری ترہ بںد کر لی۔ اُسکے باد تو اُسنے مُجھے ہوا میں ہی اُڑا دِیا۔ یونِ کی دونو پھاںکوں پر مُجھے اُسکے دونو ہاتھ مہسُوس ہُئے۔ بہُت ہی آرام سے اُسنے اَپنے اَںگُوٹھے اؤر اُںگلِیوں سے پکڑ کر موٹی موٹی پھاںکوں کو ایک دُوسری سے اَلگ کر دِیا۔ جانے کیا ڈھُوںڈھ رہا تھا وہ اَںدر۔ پر جو کُچّھ بھی کر رہا تھا، مُجھسے سہن نہی ہُآ اؤر مینے کاںپتے ہُئے جاںگھیں بھیںچ کر اَپنا پانی چھچوڑ دِیا۔۔ پر آسچریجنک ڈھںگ سے اِس بار اُسنے اَپنے ہاتھ نہی ہٹائے۔ّ۔
کِسی کپڑے سے (شاید میرے لہںگے سے ہی) اُسنے یونِ کو ساپھ کِیا اؤر پھِر سے میری یونِ کو چؤڑا کر لِیا۔ پر اَب جھاڑ جانے کی وجہ سے مُجھے نارمل رہنے میں کوئی کھاس دِکّت نہی ہو رہی تھی۔ ہاں، مزا اَب بھی آ رہا تھا اؤر میں پُورا مزا لینا چاہتی تھی۔
اَگلے ہی پل مُجھے گرم ساںسیں یونِ میں گھُستی ہُئی مہسُوس ہُئی اؤر پاگل سی ہوکر مینے وہاں سے اَپنے آپکو اُٹھا لِیا۔۔ مینے اَپنی آںکھیں کھول کر دیکھا۔ اُسکا چیہرا میری یونِ پر جھُکا ہُآ تھا۔۔ میں اَںدازا لگا ہی رہی تھی کِ مُجھے پتا چل گیا کِ وو کیا کرنا چاہتا ہے۔ اَچانک وو میری یونِ کو اَپنی جیبھ سے چاٹنے لگا۔۔ میرے سارے بدن میں جھُرجُری سی اُٹھ گیّ۔ّاِس آنںد کو سہن نا کر پانے کے کارن میری سِسکی نِکل گیی اؤر میں اَپنے نِتںبوں کو اُٹھا اُٹھا کر پٹک'نے لگی۔ّ۔پر اَب وو ڈر نہی رہا تھا۔ّ۔ میری جاںگھوں کو اُسنے کسکر ایک جگہ دبوچ لِیا اؤر میری یونِ کے اَںدر جیبھ گھُسا دی۔۔
"اَیایا!" بہُت دیر سے دبائے رکھا تھا اِس سِسکی کو۔۔ اَب دبی نا رہ سکی۔۔ مزا اِتنا آ رہا تھا کی کیا بتاُّ۔ّ۔ سہن نا کر پانے کے کارن مینے اَپنا ہاتھ وہاں لے جاکر اُسکو وہاں سے ہٹانے کی کوشِش کی تو اُسنے میرا ہاتھ پکڑ لِیا،" کُچّھ نہی ہوتا اَںجلِ۔۔ بس دو مِنِٹ اؤر!" کہکر اُسنے میری جاںگھوں کو میرے چیہرے کی ترپھ دھکیل کر وہیں دبوچ لِیا اؤر پھِر سے جیبھ کے ساتھ میری یونِ کی گہرائی ماپنے لگا۔ّ۔
ہائے رام! اِسکا متلب اُسکو پتا تھا کی میں جاگ رہی ہُوں۔۔ پہلے یے بات بول دیتا تو میں کیُوں گھُٹ گھُٹ کر مزے لیتی، میں جھٹ سے اَپنی کوہنی چارپائی پر ٹکے کر اُپر اُٹھ گیی اؤر سِسکتے ہُئے بولی،" اَیایا۔ّ۔جلدی کرو نا۔۔ کوئی آ جاّیگا نہی تو!"
پھِر کیا تھا۔۔ اُسنے چیہرا اُپر کرکے مُسکُراتے ہُئے میری اؤر دیکھا۔۔ اُسکی ناک پر اَپنی یونِ کا گاڑھا پانی لگا دیکھا تو میری ہںسی چھچھُوٹ گیّ۔۔ اِس ہںسی نے اُسکی جھِجھک اؤر بھی کھول دی۔۔ جھٹ سے مُجھے پکڑ کر نیچے اُتارا اؤر گھُٹنے زمین پر ٹیکا مُجھے کمر سے اُپر چارپائی پر لِٹا دِیا۔ّ،" یے کیا کر رہے ہو؟"
"ٹائیم نہی ہے اَبھی بتانے کا۔۔ باد میں سب بتا دُوںگا۔۔ کِتنی رسیلی ہے تُو ہائے۔۔ اَپنی گیںڈ کو تھوڑا اُپر کر لے۔۔"
"پر کیسے کرُوں؟۔۔ میرے تو گھُٹنے زمین پر ٹیکے ہُئے ہیں۔ّ؟"
"تُو بھی نا۔۔ !" اُسکو گُسّا سا آیا اؤر میری ایک ٹاںگ چارپائی کے اُپر چڑھا دی۔۔ نیچے تکِیا رکھا اؤر مُجھے اَپنا پیٹ وہاں ٹیکا لینے کو بولا۔۔ مینے ویسا ہی کِیا۔۔
"اَب اُٹھاّو اَپنے چُوتڑ اُپر۔۔ جلدی کرو۔۔" بولتے ہُئے اُسنے اَپنا مُوسل جیسا لِںگ پیںٹ میں سے نِکال لِیا۔۔
میں اَپنے نِتںبوں کو اُپر اُٹھاتے ہُئے اَپنی یونِ کو اُسکے سامنے پروسا ہی تھا کِ باہر پاپا کی آواز سُنکر میرا دم نِکل گیا،" پپّپا!" میں چِلّائی۔ّ۔۔
"دو کام کیا کر لِئے; تیری تو جان ہی نِکل گیّ۔۔ چل کھڑی ہو جا اَب! نہا دھو لے۔ 'وو' آنے ہی والا ہوگا۔ّ۔ پاپا نے کمرے میں گھُسکر کہا اؤر باہر نِکل گیے،"جا کشوٹُو! ایک 'اَدّھا' لیکر آ!"
ہائے رام! میری تو ساںسیں ہی تھم گیی تھی۔ گنیمت رہی کی سپنے میں مینے سچمُچ اَپنا لہںگا نہی اُٹھایا تھا۔ اَپنی چُوچِیو کو دباکر مینے 2-4 لںبی لںبی ساںسیں لی اؤر لہںگے میں ہاتھ ڈال اَپنی کچھی کو چیک کِیا۔ یونِ کے پانی سے وو نیچے سے تر ہو چُکی تھی۔ بچ گیی!
رگڑ رگڑ کر نہاتے ہُئے مینے کھیت کی مِٹّی اَپنے بدن سے اُتاری اؤر نیی نویلی کچھی پہن لی جو ممّی 2-4 دِن پہلے ہی باجار سے لائی تھی،" پتا نہی اَںجُو! تیری اُمر میں تو میں کچھی پہنتی بھی نہی تھی۔ تیری اِتنی جلدی کیسے کھراب ہو جاتی ہے" ممّی نے لاکر دیتے ہُئے کہا تھا۔
مُجھے پُوری اُمّید تھی کِ ریںپھل کا لڑکا میرا سپنا ساکار زرُور کریگا۔ اِسیلِئے مینے سکُول والی سکرٹ ڈالی اؤر بِنا برا کے شرٹ پہنکر باتھرُوم سے باہر آ گیّ۔
"جا وو نیچے بیٹھے تیرا اِںتزار کر رہے ہیں۔۔ کِتنی بار کہا ہے برا ڈال لِیا کر; نِکمّی! یے ہِلتے ہیں تو تُجھے شرم نہی آتی؟" ممّی کی اِس بات کو مینے نزراَںداج کِیا اؤر اَپنا بیگ اُٹھا سیڑھِیوں سے نیچے اُترتی چلی گیّ۔
نیچے جاکر مینے اُس چشمُو کے ساتھ بیٹھی پڑوس کی رِںکی کو دیکھا تو میری سمجھ میں آیا کِ ممّی نے بیٹھا ہے کی وجاے بیٹھے ہیں کیُو بولا تھا
"تُم کِسلِئے آئی ہو؟" مینے رِںکی سے کہا اؤر چشمُو کو اَبھِوادن کے رُوپ میں داںت دِکھا دِئے۔
اُلُّو کی دُوم ہںسا بھی نہی مُجھے دیکھکر،" کُرسی نہیں ہیں کیا؟"
"میں بھی یہیں پڑھ لِیا کرُوںگی۔۔ بھیّا نے کہا ہے کِ اَب روج یہیں آنا ہے۔ پہلے میں بھیّا کے گھر جاتی تھی پڑھنے۔۔ " رِںکی کی سُریلی آواز نے بھی مُجھے ڈںک سا مارا۔ّ۔
"کؤن بھیّا؟" مینے مُںہ چڑھا کر پُوچّھا!
"یے۔۔ ترُن بھیّا! اؤر کؤن؟ اؤر کیا اِنکو سر کہیںگے؟ 4-5 سال ہی تو بڑے ہیں۔۔" رِںکی نے مُسکُراتے ہُئے کہا۔۔
ہائے رام! جو تھوڑی دیر پہلے سپنے میں 'سیّاں' بنکر میری 'پھُولجھڑی' میں جیبھ گھُما رہا تھا; اُسکو کیا اَب بھیّا کہنا پڑیگا؟ نا! مینے نا کہا بھیّا
" میں تو سر ہی کہُوںگی! ٹھیک ہے نا، ترُن سر؟"
بیشرمی سے میں چارپائی پر اُسکے سامنے پسر گیی اؤر ایک ٹاںگ سیدھی کِئے ہُئے دُوسری گھُٹنے سے موڑ اَپنی چھاتی سے لگا لی۔ سیدھی ٹاںگ والی چِکنی جاںگھ تو مُجھے اُپر سے ہی دِکھائی دے رہی تھی۔۔ اُسکو کیا کیا دِکھ رہا ہوگا، آپ کھُد ہی سوچ لو۔
"ٹھیک سے بیٹھ جاّو! اَب پڑھنا شُرُو کریںگے۔۔ " ہرامی نے میری جنّت کی اور دیکھا تک نہی اؤر کھُد ایک ترپھ ہو رِںکی کو بیچ میں بیٹھنے کی جگہ دے دی۔۔ میں تو سُلگتی رہ گیّ۔۔ مینے آلتھی پالتی مار کر اَپنا گھُٹنا جلن کی وجہ سے رِںکی کی کوکھ میں پھںسا دِیا اؤر آگے جھُک کر رانی سُورت بنائے کاپی کی اؤر دیکھنے لگی۔ّ۔
ایک ڈیڑھ گھںٹے میں جانے کِتنے ہی سوال نِکال دِئے اُسنے، میری سمجھ میں تو کھاک بھی نہی آیا۔۔ کبھی اُسکے چیہرے پر مُسکُراہٹ کو کبھی اُسکی پیںٹ کے مردانا اُبھر کو ڈھُوںڈھتی رہی، پر کُچّھ نہی مِلا۔۔
پڑھتے ہُئے اُسکا دھیان ایک دو بار میری چُوچِیو کی اؤر ہُآ تو مُجھے لگا کِ وو 'دُودھ' کا دیوانا ہے۔ مینے جھٹ سے اُسکی سُنتے سُنتے اَپنی شرٹ کا بیچ والا ایک بٹن کھول دِیا۔ میری گڈرائی ہُئی چُوچِیا، جو شرٹ میں گھُٹن مہسُوس کر رہی تھی; راستا مِلتے ہی اُس اؤر سرک کر ساںس لینے کے لِئے باہر جھاںکنے لگی۔۔ دونو میں باہر نِکلنے کی مچی ہوڑ کا پھایڈا اُنکے بیچ کی گہری گھاٹی کو ہو رہا تھا، اؤر وہ بِلکُل سامنے تھی۔
ترُن نے جیسے ہی اِس بار مُجھسے پُوچّھنے کے لِئے میری اؤر دیکھا تو اُسکا چیہرا ایکدم لال ہو گیا۔۔ ہڑبڑتے ہُئے اُسنے کہا،" بس! آج اِتنا ہی۔۔ مُجھے کہیں جانا ہے۔ّ۔ کہتے ہُئے اُسنے نزریں چُراکر ایک بار اؤر میری گوری چُوچِیو کو دیکھا اؤر کھڑا ہو گیا۔ّ۔۔
ہد تو تب ہو گیّ، جب وو میرے سوال کا جواب دِئے بِنا نِکل گیا۔
مینے تو سِرف اِتنا ہی پُوچّھا تھا،" مزا نہی آیا کیا، سر؟"