میں اپنے خیالوں میں مگن چلا جا رہا تھا کہ پیچھے سے کار کا ہارن سن کر چونک پڑا مڑ کر دیکھا تو گہرے مرون کلر کی مہران تھی. اف میرا تو غصے سے برا حال ہو گیا ایک تو میں سڑک کے بلکل کنارے چلا جا رہا تھا اب یہ کار والا پتہ نہیں کیا چاہ رہا تھا. کار والے نے قریب آکر گہرے کلر کے شیشے نیچے کئے تو میں نے دیکھا کار ڈرائیور ایک حسین دوشیزہ تھی اور مجھ سے قریب واقع کافی شاپ کا پتہ پوچھ رہی تھی. لڑکی کافی خوبصورت تھی اسکا مہتابی چہرہ دیکھ کر میں ایک لمحے کیلئے گڑبڑا تو گیا لیکن پھر تھوک نگل کر پتہ سمجھانے لگا. پتہ سمجھتے ہی لڑکی نے شکریہ کہ کر شیشہ اوپر کر لیا اور گاڑی اگلے موڑ پر نظروں سے اوجھل ہوگئ. میر نام ارمغان ھے میں خوابوں میں رہنے والا ایک نوجوان ہوں لڑکی کے رکنے سے لیکر جانے تک ذہن نے نجانے کیا کیا سوچ لیا تھا جو اسکے جانے کے بعد ہوا ہوگئے.
سردیوں کی سرد اور کہر بھری شام تھی میں جوھر میں سفاری پارک کے پاس سے ہوتا ہوا اپنے گھر جارھا تھا. سرد ہوا گویا میری چمڑے کی جیکٹ کو کاٹتے ہوئے جسم میں چھید کر رہی تھی. میں نے ایک جھرجری لیتے ہوئے خیالوں میں چند لمحے قبل ملنی والی دوشیزہ کا تصور کرنا شروع کردیا کہ شاید اسکا حسین سراپہ میرے وجود میں کوئ گرمی کی لہر دوڑا دے لیکن بے سود...
میں ایک شرمیلا سا نوجوان تھا جو معاشرے کے دوسرے بہت سے بوجوانوں کی طرح حسین لڑکیاں دیکھ کر اندر ہی اندر ابلتے ہیں لیکن کچھ کہہ نیہں پاتے، کہیں معاشرے کا ڈر، کہیں رسوائ کا خوف اور کیہں معاشرے میں اپنی نیک نامی کا احساس پاوں میں جیسے کوئ زنجیر سی ڈال دیتا ہو اور جذبات اور نفسانی خواہشات سینے کے دوزخ میں ہی جل کر رہ جاتی ہوں...
میں ایسے ہی الٹے سیدھے خیالات میں مگن جب اگلا موڑ مڑا تو مجھے وہی مہران نظر آئ جو کہ سڑک کے کنارے کھڑی تھی اسکا بونٹ اوپر کو تھا میں دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ گاڑی خراب ہو گئ ہے میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے گاڑی تک پہنچا لیکن یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ گاڑی کے پاس وہ حسین نازنین تو کیا کسی بھی ذی روح کا نام و نشان نہ تھا میں نے ادھر ادھر دیکھا پھر ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھا میری آنکھیں کھلی رہ گئی ڈرائیونگ سیٹ پر اسی نازنین کا کٹا سر رکھا ہوا تھا جس کی صراحی دار گردن سے رستے خون نے سیٹ پر سرخ سادھبہ بنا دیا تھا...اگلی قسط جلد ہی منتظر رہئے...آپکی قیمتی آراء کا انتظار رہے گا...م