|
(30-03-2016, 11:20 PM )
Story Maker
اور بیچ راستے میں بندھی ہوئی ریڑھیاں اور سامان پڑا ہوتا ہے، جسے رات کو ان کے مالک چوکیدار کے آسرے پر چھوڑ چلے جاتے ہیں، اور تنگ راستے میں ان رکاوٹوں سے بچ کر چلنا پڑتا ہے۔ میں بھی احتیاط سے سائیکل چلاتا ہوا ایک بڑا سا خاکی کنٹوپ پہنے چوکیدار کے آگے سے گزرا، جو سرد رات کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ لکڑی کی بیکارپھٹیوں اور بھوسے کو جلا کر اکڑوں بیٹھا ہوا ہاتھ سینک رہا تھا، اور ساتھ ساتھ بیڑی کے کش لگا لیتا تھا۔ مجھے دیکھ کر چوکیدار ہوشیار ہوگیا اور بولا، "باو جی، دیکھ کر جائیے گا، علاقے میں چڑیل آئی ہوئی ہے۔ میں "اچھا" کہتے ہوئے آگے نکل آیا۔ ایک لمحہ ہی گزرا تھا کہ بجلی بھی چلی گئی اور تنگ گلیاں جو کہ کچھ دیر قبل پرانے بلبوں کی پیلی روشنی میں نہا رہی تھیں، یکدم اندھیرے میں ڈوب گئیں۔
رکاوٹوں سے بچنے کے لئے میں سائیکل سے اتر آیا اور ہینڈل تھامے پیدل چلنے لگا۔ عجب ویرانہ سا تھا،اور ہر طرف ایک ہو کا سا عالم چھایا تھا۔صرف میرے قدموں کی گونجتی تھاپ سنائی دیتی، یا پھر قدموں میں آتے ہوئے رستے میں پڑے بھوسے یا اخباری کاغذوں کی سرکراہٹ۔اچانک دور سے آتی کسی انسانی کراہ سن کر میں ٹھٹھک گیا، اور بلا آواز کیے آہستہ چلتا گیا۔ نزدیک آتی ہوئی آواز مزید واضح ہوتی گئی، جو کہ ایک ریڑھی کے نیچے سے آرہی تھی، کسی کی منمناہٹ کرتی ہوئی آواز۔۔ جیسے کہ کوئی کسی کو باندھ کر گلاگھونٹ رہا ہو۔۔۔۔!!
خوف اور تجسس کے اس عالم میں میں نے جھک کر ریڑھی کے نیچے دیکھا، مگر جو سین چلتا دیکھا، اسے دیکھ کر میرا بایاں ہاتھ غیر ارادی طور پر میری شلوار کی طرف چلا گیا۔
|
(30-03-2016, 11:21 PM )
Story Maker
میں حسین آگاہی بازار میں کپڑا رنگنے کا کام کرتا ہوں۔ ایک دفعہ روزوں میں عید کا آڈر مکمل کرنے کے لئے رات تین بجے کے قریب فارغ ہوا اور اپنی سائیکل پر سوار گھر کی طرف نکل پڑا۔ جیسا کہ آپ کو پتہ ہوگا کہ بازار کی گلیاں کافی تنگ ہیں، اور بیچ راستے میں بندھی ہوئی ریڑھیاں اور سامان پڑا ہوتا ہے، جسے رات کو ان کے مالک چوکیدار کے آسرے پر چھوڑ چلے جاتے ہیں، اور تنگ راستے میں ان رکاوٹوں سے بچ کر چلنا پڑتا ہے۔ میں بھی احتیاط سے سائیکل چلاتا ہوا ایک بڑا سا خاکی کنٹوپ پہنے چوکیدار کے آگے سے گزرا، جو سرد رات کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ لکڑی کی بیکارپھٹیوں اور بھوسے کو جلا کر اکڑوں بیٹھا ہوا ہاتھ سینک رہا تھا، اور ساتھ ساتھ بیڑی کے کش لگا لیتا تھا۔ مجھے دیکھ کر چوکیدار ہوشیار ہوگیا اور بولا، "باو جی، دیکھ کر جائیے گا، علاقے میں چڑیل آئی ہوئی ہے۔ میں "اچھا" کہتے ہوئے آگے نکل آیا۔ ایک لمحہ ہی گزرا تھا کہ بجلی بھی چلی گئی اور تنگ گلیاں جو کہ کچھ دیر قبل پرانے بلبوں کی پیلی روشنی میں نہا رہی تھیں، یکدم اندھیرے میں ڈوب گئیں۔
رکاوٹوں سے بچنے کے لئے میں سائیکل سے اتر آیا اور ہینڈل تھامے پیدل چلنے لگا۔ عجب ویرانہ سا تھا،اور ہر طرف ایک ہو کا سا عالم چھایا تھا۔صرف میرے قدموں کی گونجتی تھاپ سنائی دیتی، یا پھر قدموں میں آتے ہوئے رستے میں پڑے بھوسے یا اخباری کاغذوں کی سرکراہٹ۔اچانک دور سے آتی کسی انسانی کراہ سن کر میں ٹھٹھک گیا، اور بلا آواز کیے آہستہ چلتا گیا۔ نزدیک آتی ہوئی آواز مزید واضح ہوتی گئی، جو کہ ایک ریڑھی کے نیچے سے آرہی تھی، کسی کی منمناہٹ کرتی ہوئی آواز۔۔ جیسے کہ کوئی کسی کو باندھ کر گلاگھونٹ رہا ہو۔۔۔۔!!
خوف اور تجسس کے اس عالم میں میں نے جھک کر ریڑھی کے نیچے دیکھا، مگر جو سین چلتا دیکھا، اسے دیکھ کر میرا بایاں ہاتھ غیر ارادی طور پر میری شلوار کی طرف چلا گیا۔
|
(30-03-2016, 11:24 PM )
Story Maker
ریڑھی کے نیچے ایک سفید سی مردانہ ٹانگ صاف ننگی دکھائی دے رہی تھی، جس پر ہلکے ہلکے بال تھے، اور گھٹنا اوپر کو کیے مڑی ہوئی تھی اور ہلکے ہلکے سے ہل رہی تھی، کہ جیسے دھیمے سے کوئی چپو چلا رہا ہو، جبکہ دوسری ٹانگ نسواری رنگ کی شلوار میں ہی تھی اور لمبی پساری ہوئی تھی، اور لمبا سا بھرا بھرا پھندے والا ازاربند بھی واضح تھا۔ قمیص بھی تھوڑا اوپر کو اٹھی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ایک خوبصورت سا پیٹ واضح تھا، جبکہ بندے کا منہ اندھیرے میں ہونے کی وجہ سے دکھ نہیں رہا تھا ۔ پاس ہی پڑے بندھے ہوئے قالین کے بنڈل پڑے ہوئے تھے، جس سے اندازہ ہورہا تھا کہ یہ کوئی قالین فروش جواں پٹھان ہوگا جو رات پڑنے پر یہیں گلی میں چادر بچھا کر سو گیا تھا۔ ہلکورے کھاتی ہوئی ننگی ٹانگ اورزیریں ناف ٹکی مٹھی جوکہ پورا گھیرا نہ پڑپانے سے مکمل بند نہ ہو پارہی تھی لگاتار جھٹکوں میں ہل رہی تھی عیاں کرتی تھی کہ صاحب کسی مشکوک حرکت سے لذت اٹھا رہے تھے۔ مجھے ہنسی سی آئی، جسے میں ایک لڑکی کی ٹانگ سمجھ کر ٹھٹھکا تھا وہ تو ایک بڑے اعضاء کے مالک پٹھان کی تھی۔ دل تو چاہا کہ رنگے ہاتھ پکڑ کر اس کی دھلائی کردوں، مگر غریب کی عیاشی پر ترس کھا کر یہ خیال جھٹک دیا اور آگے چل دیا۔
جاری ہے!
|
(30-03-2016, 11:25 PM )
Story Maker
آخری قسط
"اگلے دن صبح میں دکان پر واپس آیا تو ساتھ والی دکان سے پتہ چلا کہ اسی ریڑھی کے نیچے وہ پٹھان مردہ پایا گیا ہے۔ صاحب ہر کسی کا یہی کہنا ہے کہ وہ بندہ سردی سے ٹھٹھر کر مرا ہے، مگر مجھے پکا یقین ہے کہ اس پٹھان کو محلے کی چڑیل نے سیکس کرکے مارا ہے۔"
اس طرح اپنی داستاں سنا کر وہ رنگریز چپ سادھ کر بیٹھ گیا ، جبکہ اس کی متفکر نگاہیں گرد آلود فرش کو ایک ٹک گھورے جا رہی تھیں۔ ایک ممی ڈیڈی شکل کا ڈیسنٹ آدمی سامنے بیٹھا اس کی کہانی اپنی نوٹ بک میں قلمبند کرچکا تھا، وہاں سے اٹھا اور واپس حسین آگاہی بازار چوک میں باٹا شوز کے سامنے پارک کی ہوئی اپنی گاڑی میں آکر بیٹھ گیا اور اپنے ریسرچ روم جو کہ شہر کے جنوبی حصے میں واقع تھا کی طرف جانےکےلئے نکل پڑا۔ یہ آدمی آغا شبر شمبرانی تھا جو کہ عمر میں پینتیس سال کا تھا اور شہر میں واقع قومی یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات میں "جرم اور مابعد طبیعاتی وجود کا تعلق" کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کا ریسرچ مقالہ لکھ رہا تھا۔
آغا شبر شمبرانی اپنی بڑی کار چلاتا ہوا شہر کے وسط یعنی ڈاون ٹون میں واقع ایک چوک سے گزر ہی رہا تھا کہ اس کی نظر سڑک کے ایک تاریک کونے میں کھڑی ایک سرخ نقاب میں ملبوس خاتون پر پڑی جو درمیانے اور تھوڑے بھارے جسم کی حامل تھی، اور بے چینی سے ادھر ادھر پلٹ رہی تھی، اور کبھی ایک ساتھ میں کھڑے رکشہ کے ڈرائیور سے کچھ بات کرکے پھر دوبارہ ادھر ادھر چلنے لگ جاتی۔ آغا شبر شمبرانی کو پکا یقین ہو گیا کہ یہ کوئی مطلب کا پنچھی ہے، اور یہ سوچ کر اس نے گاڑی تھوڑا آگے کرکے فٹ پاتھ کے ساتھ لگا دی۔ وہ عورت چلتی ہوئی آئی اور کار میں ساتھ والی اگلی سیٹ میں آکر بیٹھ گئی، اور باریک آواز میں بولی،
خاتون: "مجھے پلیز راستے میں آٹھ نمبر چونگی پر ڈراپ کردیجئے گا پلیز"۔
آغا شبر شمبرانی نے خاتون کے وجود پر غور سے نظر دوڑائی۔ کاجل کی زیادتی میں دبی ہوئی بڑی بڑی مردانہ کالی آنکھوں کے گرد جھریوں کے باعث وہ خاتون کوئی چالیس پینتالیس سال کی کی معلوم ہو تی تھی۔
آغا شبر شمبرانی: " ضرور"
تھوڑی دیر بعد خاتون بناوٹی سے لہجے میں گلابی اردو میں گویا ہوئی۔
خاتون: "وہ میں اپنے ایک دوست سے مل کر آرہی ہوں۔"
آغا شبر شمبرانی: "اچھا"
خاتون: "میرا نام شاہدہ ہے، اور میں ایک بوتیک چلاتی ہوں۔ آپ میرا فون نمبر لے لیں۔ اگر مجھ سے کوئی کام کروانا ہو تو مجھ سے رابطہ کر لینا۔۔۔۔۔۔ میرے پاس اور بھی لڑکیاں آتی ہیں جو ہمسایہ ہیں یا بوتیک میں کام کرتی ہیں دن میں اور شام میں میرے اڈے پر موجود ہوتی ہیں"
گو آغا شبر شمبرانی بھی دل لگی میں بہک گیا تھا مگر ابھی تک وہ محتاط تھا۔ اور اب دھیرے دھیرے وہ بھی کھل رہا تھا اور نٹ کھٹ باتیں کرکے محظوظ ہورہا تھا۔ اتنے میں شاہدہ نے اس کو دعوت دی کہ وہ پانچ سو روپے کے عوض گاڑی میں ہی اس کو مزا دے سکتی ہے۔ مگر آغا شبر شمبرانی نے اسے کو منع کر دیا یہ کہ کر کہ گاڑی میں ایسے کام کرنا مناسب نہیں مبادا کہ کوئی دیکھ لے گا۔ مگر شاہدہ مسلسل اصرار کرتی رہی اور وہ ٹالتا رہا۔ بالآخر شاہدہ نے اپنا ہاتھ آغا شبر شمبرانی کی پینٹ کے خاص حصے پر رکھ دیا جو کہ مستی کے جوبن کی وجہ سے اکڑ رہا تھا، اور شاہدہ دبانے لگی اور بولی کہ تھوڑا کرکے دکھاتی ہوں۔ آغا شبر شمبرانی نے پھر منع کردیا مگر ہوس کے آگے وہ بھی آہستہ آہستہ کمزور پڑ رہا تھا۔
شاہدہ: "زپ کھولیں پلیز، اسے باہر نکالیں ناں پلیز"۔
یہ کہ کر اس نے زپ کھول کر آغا شبر شمبرانی کا آلہ تناسل باہر نکال لیا اور اپنے ہاتھ میں کے کر گرفت نرم کرکے دبانے لگی۔ آغا شبر شمبرانی کا آلہ پورا سخت ہوگیا۔ آغا شبر شمبرانی نے اپنا ہاتھ شاہدہ کی ٹانگ پر رکھتے ہوئے آگے کھسکایا تو اسے شاہدہ کے انڈرویر کا کنارہ صاف محسوس ہوا، مگر وہ اس سے پہلے کہ مزید آگے جاتا، شاہدہ کا ہاتھ حرکت میں آیا اور اس نے آغا شبر شمبرانی کا ہاتھ پکڑ کر پرے دھکیل دیا۔ پھر وہ بولی۔
شاہدہ: "دیکھیں میں اس کو اپنے منہ میں لے کر چوس کر دکھاتی ہوں، آپ چلتی ہوئی گاڑی کو سروس روڈ پر لے لیں، کوئی نہیں دیکھے گامیرا سر نیچے کو چھپا ہوگا،یا پھر سامنے تاریک گلی میں گاڑی لےجائیں، اوہو آپ اتنا ڈر کیوں رہے ہیں، کچھ بھی نہیں ہوگا۔"
شاہدہ اپنا منہ آغا شبر شمبرانی کے آلہ کی طرف لے گئی، مگر آغا شبر شمبرانی نے اس کو پرے دھکیلا، سڑک پر لوگ نظر آرہے تھے ، مگر شاہدہ گویا اپنے حواس کھورہی تھی اور اب وہ ان لوگوں کی پرواہ کیے بغیر زبردستی پر اتر آئی تھی۔ گاڑی، شاہدہ کا سر اس کی گود میں پڑتا سر، اور آغا شبر شمبرانی کا بچاؤ کرتا ہاتھ مسلسل حرکت میں تھے۔ آغا شبر شمبرانی کے کانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی تھی، اور حلق خشک ہورہا تھا، اسے صاف محسوس ہو رہا تھا کہ شاہدہ کی اس کشمکش میں اس کے کوٹ کی اندرونی جیب میں موجود بٹوہ حرکت میں لایا جا رہا ہے، اور اب اس کا خوف حقیقت کا روپ لے رہا تھا، یہاں تک کہ اس کا آلہ خوف کے مارے ایک دم سادھ کر ڈھیلا ہو کر ڈھلک گیا۔
آغا شبر شمبرانی بولا: " دیکھو، میں نے کہا تھا نہ، کہ یہاں گاڑی میں ٹھیک نہیں ہے، دیکھو میرا سو گیا ہے۔"
مگر شاہدہ کی پھرتیوں میں کمی نہ آئی اور وہ جنونیوں کی طرح اپنا سر اس کی گود میں لیجانی کی کوششوں میں تھی، اور صاف معلوم پڑ رہا تھا کہ اس کے ہاتھ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ آغا شبر شمبرانی کی اندرونی جیب میں بٹوے پر حرکت کررہے تھے، مگر آغا شبر شمبرانی مسلسل اپنی جیب اپنے ہاتھ سے بچا رہا تھا۔ بالآخر وہ ایک دبی دبی سی باریک آواز میں چلائی "بچاؤ، یہ میرے ساتھ زبر دستی کر رہا رہے"۔
آغا شبر شمبرانی نے ایک سرعت میں اپنے تمام حواس سمیٹے اور غرا کر کہا:
آغا شبر شمبرانی:" دیکھ میں تجھے تھانے میں پکڑواتا ہوں، اور میں گاڑی ہجوم والی جگہ میں روکتا ہوں"۔
شاہدہ: "میں بھی لوگوں کو تمہاری کھلی ہوئی زپ کے بارے میں بتاؤں گی۔
آغا شبر شمبرانی نے اسی اثنا میں گاڑی کوکٹ مار کر ایک شاپپنگ پلازے کے سامنے بریک لگادی، جہاں دو سیکیورٹی گارڈز سامنے کھڑے تھے۔
شاہدہ نے ڈر کے مارے اپنا ہاتھ واپس کھینچا جس میں کاغذ سا تھا، اور اس نے یہ کہتے ہوئے ہاتھ چھپا لیا،
شاہدہ: "اچھا، اچھا، میں جاتی ہوں۔۔۔"
یہ کہ کر اس نے دروازہ کھولا اور باہر کو نکلنے لگی۔ اترتے وقت اس کی سائیڈ میں ہٹی ہوئی قمیص کی وجہ سے اس کی صاف مگر مردانہ سی ننگی کمر اور ہلکے نیلے رنگ کا انڈرویرٔ واضح ہورہے تھے۔
آغا شبر شمبرانی چلایا: "اوئے لونڈے!!"
نقاب پوش شاہدہ جا چکا تھا، اور بدحواس آغا شبر شمبرانی خود کو سمیٹنے کی کوشش میں تھا۔ گاڑی کا پچھلا حصہ سڑک پر آڑے ترچھا تھا، اور اوپر سے نادان ٹریفک، ایک رش سا لگ گیا تھا، جس میں سے وہ بڑی مشکل سے گاڑی ریورس کر سکا اور آگے گاڑی لے گیا۔
تھوڑا آگےجا کر اس کوایک نزدیکی چوک میں کھڑا ایک نقاب سے عاری بھاری میک اپ اور زرق برق زنانہ لباس پہنے مردانہ سختی کے حامل چہرے کا مالک ایک شخص نظر آیا۔ شید یہ وہ ہی تھا، یا پھر کوئی اور۔۔۔ جو بھی تھا۔۔۔ مگر آغا شبر شمبرانی مزید کوئی فکر کیے بغیر آگے نکل آیا۔
واپس ریسرچ سینٹر پہنچ کر اس نے پیسے گنے جو کہ بظاہر پورے دکھتے تھے، مگراسے پھر بھی احساس ہورہا تھا کہ اس کا کچھ کھو سا گیا تھا، شاید پیسے ہی!!! مگر اسے ایک خوشی بھی تھی،کہ آج اس نے سچ مچ کی چڑیل دیکھ لی تھی۔
new urdu sex story
marathi desi stories
pinky giving blowjob
hairy twatter free
mastram hindi sex stories
bhabhi chudai hindi story
indiasmastisex
shakeela big boobs pics
dost ki gand
sexy kahani in hindi fonts
hot desi stills
urdu sexey stories
real mms scandal video
shakela hot sex
ladki ki phudi
chillane duma
गांड का चौड छेद
valo valo sundor hater curir photo
pedda modda
pissing beauties
mastram stories hindi language
indian aunty armpit
bangla choti recent
kama rasam
hindi exbii
urdu incent stories
sex story hindi bhabi
shakila sex hot
urdu hot sex stories
lund ka khel
indian sex stories wife swap
marathi aunties hot
biso range mahala kandehi
dirty stories in tamil font
8teen sexy
boor me lund
assboob
telugu real sex kathalu
roja sex pictures
incest comics adult
bhabhi desi story
kambi photos aunties
bangla choti recent
indain sex stories.net
malayalam vedi nadikal
telugu sex srores
chud gayi mai
bhabhi ki malish
clib xxx
tameil xxx
free xxx vidieo.com
tution sex stories
xxx jocks
hot telugu story
punjabi adult stories
naughty aunty stories
tamil ainty
the sex story in hindi
huge boob aunties
exbii telugu sex kathalu
adult breastfeed stories
bhabhi breast
hot bhabhi story in hindi
meri sexy bhabhi
savitha comic
nangi kahaniyan
malayalam sexxx
gm diet vegetarian chart
sex stories breastfeeding
tamil sex vediyo
karenjit vohra
desi stripping videos
sexstores.in
gm diet vegetarian chart
www. xvidio. चाय में नशे की गोली पिलाकर उन सब ने मुझे चोदा
teacher sex video leaked
mallu nuds
sex story urdu fonts
hindi sex font stories
dick raising pics
hindi serial tarak mehta ka ulta chasma
sex in sarees
desi girls holi
jija saali ki story
desi incest story